دعائے خلیل و نوید مسیحا… محمد رسول اللہؐ

1000

انسان ابتدائے آفریشن ہی سے کسی نہ کسی طور پر ہدایت ربانی کا محتاج رہا ہے۔ خطا و نسیان کی فطری کمزوری کے پیش نظر اللہ رب العالمین نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے۔ جنہوں نے مختلف اقوام و ملل ممالک و علاقوں میں آ کر مریضان شرک و ضلالت کو توحید ربانی کے چشمہ صافی سے سیراب کرا کر حیات جاودانی سے ہمکنار کرانے کی سعی وجہد کی۔
تاہم ہر نبی و رسول کی دعوت محدود اثرات کی حامل تھی۔ اس پر ستم یہ کہ اکثر لوگوں نے نہ صرف اپنے انبیاء کی تکذیب کی بلکہ انہیں ناحق قتل تک کر ڈالا۔ اسی طرح صدیوں کا سفر جاری تھا کہ انبیاء کی تعلیمات مسخ کردی گئیں اور سرزمین عرب بالخصوص شرک و بت پرستی کا گڑھ بن گئی اور اللہ کے بندے اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ اصنام کی پوجا پاٹ میں مصروف ہو گئے اور بیت اللہ جسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہؑ اور ان کے فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل ذبیح اللہؑ نے خالص اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا 360 معبودان باطلہ کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ غرضیکہ ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ کہیں ستاروں کی پوجا ہو رہی تھی تو کہیں آتش پرستی سے قلوب و اذہان بھسم کیے جارہے تھے۔ گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سرزمین سے کہ جہاں اللہ کا گھر اس کے خلیل نے تعمیرکیا تھا اور دعا کی تھی کہ
قال تعالیٰ! اے ہمارے رب ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ بے شک تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔ (سورۃ البقرہ:۱۲۹)
اور اسی طرح سیدنا عیسیٰؑ نے بھی بشارت دی۔ ترجمہ! اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰؑ نے کہا کہ اے میری قوم بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی بھی تصدیق کرنے والاہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوشخبری سنانے والا ہوں‘ جن کا نام احمد ہے‘ پر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے (سورۃ الصف: آیت ۶)
اسی طرح دیگر انبیاء کرام نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمت آنے والے ہیں تو وہ ابر رحمت قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر عبداللہ کی بیوہ آمنہ کے بطن سے ہویدا ہوا اور اس کی (نبی مکرمؐ) پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلیات و عرفان سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور بیت اللہ میں رکھے گئے بت سرنگوں ہوگئے اور آتش کدئہ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آ رہا تھا بجھ گیا اور پوری کائنا ت ارضی کو یہ پیغام ربانی دیا گیا کہ اب وہ ہستی کائنات میں تشریف لا چکی جو ہر قسم کی شرک و ضلالت کو اپنے پائے استحقار تلے روندنے والی ہے۔ عبدالمطلب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو گود میں لیے بیت اللہ میں آئے اور ولادت کا اعلان عام کیا۔ لوگوں نے جب پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے تو عبدالمطلب نے برجستہ کہا محمدؐ۔ سب لوگ حیران ہو گئے کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی بہت زیادہ تعریف کیے گئے ہیں۔ یہ نام اللہ ہی نے رکھوایا کہ تاقیامت جب تک اللہ کا نام بلند ہوگا۔ اس کے محبوب کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔ اذانوں میں جہاں اشھدان لاالہ الااللّٰہ کہا جاتا ہے اسی سے متصل اشھدان محمد رسول اللّٰہ بھی کہا جاتا ہے بلکہ اللہ رب العالین نے ارشاد فرمایا کہ:
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
ترجمہ! ( اے نبیؐ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے (سورۃ الانبیاء)
یعنی جہاں جہاں تک میں رب العالمین ہوں وہاں وہاں تک میرا پیارا رحمۃ للعالمین ہے۔ نبی مکرمؐ کی پیدائش کی بشارت عالم ارواح میں تمام انبیاء سے عہد لینے کی صورت میں بھی واضح کردی گئی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں مالک کائنات ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ! اللہ تعالیٰ نے (عالم ارواح میں) نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائیں (یعنی تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے) تو تمہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ضروری ہے فرمایا۔ کیا تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمے لے رہے ہو؟ سب نے کہا ہاں ہمیں اقرار ہے فرمایا تو اب تم گواہ رہو اور خود میں تمہارے ساتھ گواہ ہوں پس اس کے بعد جو بھی پلٹ جائیں وہ یقینا پورے نافرمان ہیں (سورۃ آل عمران)
یعنی سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا عیسیٰؑ تک تمام نبیوں سے روز اول ہی اللہ تعالیٰ نے یہ قول و قرار اور وعدہ لے لیا تھا کہ اگر میں اپنے محبوب محمد رسول اللہؐ کو تمہارے زمانے میں بھیجوں تو تم پر فرض ہوگا کہ تم ان پرایمان لائو اور ان کی مدد کرو اگر تم اس کا اقرار کرتے ہو تو تمہیں نبی اور رسول بنا کر بھیجیں گے اور کتا ب و حکمت بھی عطا کریں گے‘ تو تمام انبیاء و رسل نے اس کا اقرار کیا اور جب وہ انبیاء دنیا میں مبعوث ہوئے تو انہوں نے اپنی اپنی امتوںکو یہ نصیحت فرمائی کہ اگر تم محمدؐ کا زمانہ پائو تو ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ گویا تمام انبیاء نے رسالت محمدیؐ کا اقرار کیا اور ان کا امتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔
برادران اسلام! نبی کریمؐ ابراہیمؑ کی دعا اورسیدنا عیسیٰؑ کی بشارت ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ کے اندر اللہ تعالیٰ نے تمام اوصاف حمیدہ اتمام و اکمال کے ساتھ پیدا فرما دیے تھے‘ آپ محمدہیں‘ محمود ہیں‘ احمد ہیں‘ بشیر و نذیر‘ حبیب و حلیم‘ رشید و عادل‘ خازن و قاسم‘ سید الخلق‘ امام الانبیاء‘ سید المرسلین‘ شفیق المذنبین‘ رحمۃ للعالمین بھی ہیں۔ آپ صادق و مصدوق اور امین بھی ہیں۔ طیب و طاہر‘ حامی و حاشر و عاقب‘ مدثر و مزمل بھی ہیں۔ آپ کی عظمت و رفعت پوری کائنات میں افضل و اعلیٰ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا۔
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک
ترجمہ!اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا (سورۃ الانشراح)
چونکہ آپ خاتم النبیین بن کر آئے لہٰذا آپ کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف و کمال مجتمع کر دیے گئے تھے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضاء داری
آںچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
یعنی جیساکہ سیدنا یوسفؑ کو اللہ نے حسین و جمیل پیدا کیا اور سیدنا عیسیٰؑ کو معجزہ زندگی عطا فرمایا اور موسیٰؑ کو یدبیضاء کا معجزہ یعنی جب وہ بغل میں ہاتھ ڈالتے تو وہ چمکتا ہوا نکلتا تھا۔ ان تمام انبیاء و رسل میں جو اوصاف و کمالات موجود تھے وہ سب کے سب آپؐ کی ذات والا صفات میں اکمل و اجمل پید اکر دیے گئے تھے۔
آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ نے آپؐ کا اسم گرامی احمد رکھا۔ بعد ازاں عرب کے رواج کے مطابق آپ کو پرورش و پرداخت کے لیے دائی حلیمہ سعدیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ آپؐ کے عدل و انصاف کے مظاہر دیکھیے کہ دائی حلیمہ کہتی ہیںکہ آقاؑ نے کبھی دونوں چھاتیوں سے دودھ نہیں پیا بلکہ ایک جانب سے پیتے اور دوسری چھاتی اپنے رضاعی بھائی کے لیے چھوڑ دیتے۔
امام کائناتؐ کی پاکیزہ زندگی کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے تو کسی بدترین دشمن کو بھی آپؐ کی سیرت مبارکہ میں زندگی کے کسی بھی موڑ پر کہیں بھی انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ آپ صدق و صفا کے پیکر‘ علم و تواضع کے خوگر‘ نرم گفتار‘ ملنسار‘ خلیق‘ باحیا اور مصائب و آلام پر صبر کا کوہ گراں ثابت ہوئے۔ کفار مکہ نے ہر طریقہ سے آپ کو آپ کے مشن سے باز رکھنے کے جتن کر لیے مگر آپؐ کے پائے استقامت میں ذرہ برار بھی جنبش نہیں آئی بلکہ آپ نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا کہ اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاندلا کر رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے باز آنے والا نہیں۔
باقی صفحہ7نمبر1
یہی وجہ تھی کہ آپؐ اور آپ کے ساتھیوں کو ڈھائی سال تک شعب ابی طالب میں سوشل بائیکاٹ کے نتیجے میں محصور رہنا پڑا اور اس دوران ہر طرح کی مصیبتیں جھیلیں مگر اف نہ کی یہاں تک کہ آپؐ کو مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہوا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو کر رہا اور رحمت کائنات ؐ نے انسانی تاریخ کی سب سے مثالی ریاست قائم کر کے دکھلا دی جو رہتی دنیا تک کے لیے منارہ نور ہے۔ غلاموں‘ یتیموں‘ بیوائوں اور مسکینوں‘ مہمانوں حتیٰ کہ جان کے دشمنوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی‘ عفو و در گزر اور روا داری جیسے اوصاف حمیدہ کے ذریعہ برتائو کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں بلکہ ایسا حسن سلوک وہی کر سکتا ہے جس میں اللہ نے صبر و استقامت اور رحمت و شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہو۔
رحمۃ للعالمینؐ نے جہاں کائنات میں توحید ربانی کا علم بند کیا اور بیت اللہ کو معبودان باطلہ سے پاک کر کے قیامت تک کے لیے خالص اللہ کی عبادت کے لیے خاص کر دیا۔ وہیں اپنی سیرت مبارکہ کے ایسے مقدس و پاکیزہ گہرہائے نقوش چھوڑے جو پوری انسانیت کے لیے منبع رشد و ہدایت اور دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کے ضامن ہیں۔ ماہ ربیع الاول کی ان ساعتوںمیں کہ جب آپؐ کی ولادت و رحلت واقع ہوئی۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ اپنی پوری زندگی کو خالص قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنے اخلاق و کردار‘ عقائد و اعمال کی درستی کا اہتمام کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریہ حیات پر عمل پیرا رہ کر دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہم کنار ہونے کی بھرپور سعی و جہد کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوںمیں قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین یا رب العالمین