عوامی غصے کو منظم کرنے کی ضرورت

933

عمران خان کی حکومت میں غریب اور متوسط طبقے کی زندگی روزانہ کی بنیاد پر بدترین اور مشکل ہوتی جارہی ہے جبکہ سرمایہ دار و اشرافیہ پھل پھول رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا، لیکن اس وقت عمران خان ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ دلجمعی کے ساتھ آئی ایم ایف کی غلامی کرتے نظر آرہے ہیں، اور وہ جیسے جیسے کہہ رہا ہے اُس کے مطابق عوام کا گلا دبایا جارہا ہے، عوام کی کھال اتارنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرکے آئی ایم ایف سے داد لی جاہی ہے۔ ملک دشمنی پر مبنی جن سخت شرائط پر قرضہ لیا گیا ہے ان کی وجہ سے آئندہ آنے والے دنوں میں قوم کو مزید مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عمران خان نے تین سال میں تین وزیر خزانہ بنائے، یہ سب ہی آئی ایم ایف کے گن گانے والے اور اُس کے وفادار نظر آئے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ملک و قوم کے لیے سوچنے والا نہیں۔ حکومت کا تازہ ترین عوام دشمن اقدام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہے۔ نوٹی فکیشن کے مطابق پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے 49 پیسے اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 12 روپے 44 پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ قیمتوں میں اس اضافے کے بعد اب عوام کو پٹرول 137 روپے 79 پیسے فی لیٹر، جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل 134 روپے 48 پیسے فی لیٹر دستیاب ہوگا۔ پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کے ساتھ ساتھ مٹی کے تیل کی قیمت میں 10 روپے 95 پیسے فی لیٹر، اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں بھی 8 روپے 84 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس طرح حکومت نے صرف 15 دنوں میں پٹرول کی قیمت میں 15روپے سے زائد کا اضافہ کیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران کئی مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ ایک دن پہلے ہی بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے، اور یہ حکومت 3 سال میں بجلی کی قیمت میں 40 فی صد سے زائد اضافہ کرچکی ہے۔ گیس کی قیمتیں جو کہ پہلے ہی آسمان کو چھو رہی تھیں، وہ بھی مزید بڑھا دی گئی ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ جہاں روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے وہاں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں تیز ترین اضافہ ہوچکا ہے۔ بعض معاشی ماہرین کے مطابق یہ 30 فی صد سے زیادہ ہے، جبکہ حقیقت میں یہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا، کیونکہ بہت سی اشیاء کی قیمتیں پچھلے چند ماہ میں دگنی ہو چکی ہیں۔ آٹا، گھی، دالوں اور سبزیوں سمیت روز مرہ استعمال کی ہر شے کا حصول عام آدمی کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔ ادارۂ شماریات نے جو رپورٹ دی ہے اُس کے مطابق رواں ہفتے کے دوران ٹماٹر، آلو، گھی، ایل پی جی کے گھریلو سلینڈر سمیت 22 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک ہفتے میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ایک فی صد سے زائد اضافہ ہوا۔ ادارۂ شماریات نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مہنگائی کی مجموعی شرح 12.66 فی صد رہی جبکہ سب سے کم آمدن والے طبقے کے لیے مہنگائی 14.12 فی صد پر پہنچ گئی ہے۔ ادارۂ شماریات کے مطابق کراچی میں آٹے کے 20 کلو کے تھیلے کی قیمت 1500 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح ڈالر کا معاملہ ہے، تمام حکومتی دعووں اور شیخ رشید کی فضول حرکتوں اور کاروباری حضرات کو تنگ کرنے کے باوجود انٹر بینک میں کاروباری ہفتے کے آخری روز ڈالر کی قیمت 171 روپے سے زیادہ رہی ہے۔ جب کہ وزیراعظم عمران خان اب بھی بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کیا جائے، غریب عوام کو ریلیف پہنچانا ہماری ذمے داری ہے، ہمیں اپنی ذمے داری کا مکمل احساس ہے۔ جب کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے مہنگائی میں کمی نہ ہونے سے خبردار کردیا ہے اور کہا ہے کہ محض پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی میں جاکر موجودہ شرائط پر عمل کرنے کے بعد پاکستان نئے سیاسی و اقتصادی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور اُن کے وزراء کی دل خوش کن باتیں اور یقین دہانیاں سن سن کر تین برس میں مہنگائی کے ہاتھوں پسے عوام کے کان پک گئے ہیں، ان کی باتیں مذاق بن گئی ہیں۔ دوسری طرف چینی، آٹے کا بحران ہو یا ایل این جی خریدنے کا معاملہ… مافیاز ہر شعبے میں پوری طرح من مانی کررہے ہیں، جب کہ عمران خان کی حکومت ان کے سامنے بے بس اور بے کس، ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنی محض زبانی دعووں میں مصروف ہے۔ کرپشن اور عوامی نمائندوں کے اثاثوں میں جس رفتار سے اضافہ ہوا اُس کی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہے۔ بدانتظامی اور عدلیہ و میڈیا سے محاذ آرائی اس پر مستزاد ہے۔ ناقابلِ یقین تباہی و بربادی اور قومی زندگی کے بدترین بحران کے موقع پر حکومت ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کو مسئلہ بناکر بیٹھی ہوئی ہے جیسے ملک میں اور کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ رویہ عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے، اور اس نے انارکی کا منظرنامہ سامنے کھڑا کردیا ہے۔ یہ بھی اس ملک کی حقیقت ہے کہ جب منظر کچھ بدلنا ہوتا ہے تو جن پہ تکیہ ہوتا ہے وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں جس قسم کی بدحالی ہے اُس میں ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی شامل ہے، اور اپوزیشن کو عالمی کھلاڑیوں یا ملک کے اصل حکمرانوں کی طرف سے ان مظالم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غم و غصے کو کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے، اور وہ عوامی ایشوز پر ظاہری شور شرابے سے زیادہ کچھ نہیںکرتے۔ اتنی زیادہ مہنگائی اور بے روزگاری ہوگئی ہے لیکن کوئی مزاحمتی عوامی تحریک کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ لیکن یہ صورت حال زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی، اور عوام کا غم و غصہ انتہائوں کو پہنچ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پٹرول کی قیمت میں موجودہ اضافے کے بعد لوگ سڑکوں پر آجاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، لوگ باہر نہیں نکل رہے، اور یہی وجہ ہے کہ بڑی اور حقیقی تحریک نہ ہونے سے ان حکمرانوں کے حوصلے بہت بلند ہیں اور وہ طاقت کے نشے کے ساتھ عوام پر تاریخ کا بدترین جبر اور ظلم کرنے میں مصروف ہیں۔
وزیراعظم عمران خان، وزراء اور مشیران کو سمجھنا چاہیے کہ وہ آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھ کر زیادہ دنوں تک لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے، کیونکہ حالات چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ یہ صورت حال بڑے انتشار، خانہ جنگی یا فساد کی طرف بڑھ رہی ہے جو کسی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی غصے کو منظم عوامی تحریک میں تبدیل کیا جائے جس کی بڑی گنجائش موجود ہے۔