امریکا کی پاکستان کو دوبارہ جنگ میں جُھونکنے کی تیاری

876

امریکا کی سیکرٹری اسٹیٹ وینڈی شرمن نے پاکستان سے قبل اپنے دورۂ بھارت کے ممبئی میں ایک تقریب میں کہا کہ ان کا دورۂ پاکستان بہت ’مخصوص اور محدود مقاصد‘ کے لیے ہے اور فی الوقت امریکا پاکستان سے وسیع البنیاد تعلقات نہیں چاہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو ایسا نظر نہیں آ رہا کہ ہم فی الوقت پاکستان سے وسیع البنیاد تعلقات قائم کر سکتے ہیں، اور نہ ہی امریکا بھارت اور پاکستان کے ساتھ یکساں تعلقات کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ممبئی میں آننتا ایسپن سینٹر میں ہونے والی تقریب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا دورہ پاکستان چند اہم وجوہات کی بنا پر ہے پاکستانی حکومت سے گفتگو کی جارہی ہے۔ وینڈی شرمن کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے ممالک یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں اس وقت کیا ہو رہا ہے اور امریکا کی خواہش ہے کہ تمام فریقین افغانستان کے معاملے پر ایک ذہن کے ساتھ افغانستان سے تعلقات کو آگے بڑھائیں۔ لیکن سب سے اہم بات جو انہوں نے کہی وہ یہ تھی کہ وہ پاکستان اس لیے آئی تھیں کہ بھارت اور امریکا سیکورٹی کو یقینی بنا سکیں۔ اُدھر امریکی اخبارات کے مطابق امریکا کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ’’پاکستان کو تمام انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے‘‘۔ اس بات پر آمادہ کرنے لیے امریکا کی سیکرٹری اسٹیٹ وینڈی شرمن نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری وینڈی شرمن سات اور آٹھ اکتوبر کو اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے کئی اہم امور پر بات چیت کی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے کسی امریکی عہدیدار کا یہ اسلام آباد کا پہلا دورہ ہے۔ خطے کی صورت حال اور شدت پسندی کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکی حکام اس سلسلے میں پاکستان پر کئی بار دہرا معیار اپنانے کا الزام بھی عائد کرتے رہے ہیں تاہم پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان اس تاثر کی سختی سے نفی کرنے کے ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے جو خود شدت پسندی سے بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنانا چاہیے۔ وینڈی شرمن نے امریکا سے روانہ ہونے کے بعد سوئٹزر لینڈ میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا، ’’ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط شراکت داری کے خواہاں ہیں اور ہم تمام عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلا امتیاز تسلسل کے ساتھ کارروائی کی توقع کرتے ہیں‘‘۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے اس موقف کا بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردی سے پاکستان کا بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم دونوں ممالک دہشت گردی کی لعنت سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ہم تمام علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے کے لیے تعاون کی کوششوں کے منتظر ہیں۔
کابل میں طالبان کی حکومت قیام کے بعد سے مغربی ممالک کو یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں افغانستان کی سرزمین پھر سے شدت پسندوں کا ٹھکانہ نہ بن جائے۔ حالانکہ طالبان کی قیادت نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم مغربی ممالک پاکستان سے بھی تعاون کے خواہاں ہیں تاکہ وہاں مبینہ سرگرم شدت پسند تنظیموں پر قابو پایا جا سکے۔ خطے میں امریکا کے اتحادی بھارت کو سب سے زیادہ تشویش لاحق ہے کہ کہیں طالبان کے آنے سے اس کے زیر انتظام کشمیر میں شدت پسندی میں اضافہ نہ ہو جائے۔ امریکا کا اس بات پر زور دینا کہ پاکستان کو تمام انتہا پسند گروہوں کے خاتمے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس حوالے سے اپنی کوششوں کا حوالہ دے کر کہتا رہا ہے کہ خطے میں افغانستان کے بعد جو ملک سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے وہ پاکستان ہے اور اس کے ہزاروں شہری اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ اور اب امریکا پاکستان کو دوبارہ اسی میدان میں دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے جہاں پاکستان کی معیشت تباہ اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اس لیے پاکستان ’’شرمن کا دورہ خیر من‘‘ نہ سمجھے۔ پاکستان نے پہلے امریکا کے کہنے پر عمران کابینہ کے اکثر ارکان کا تعلق کسی نہ کسی طور پر امریکا سے جڑتا نظر آتا ہے۔ اسی لیے بھارت کا تین روزہ دورہ مکمل کر کے جب وینڈی شرمن پاکستان پہنچیں تو انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف سے ملاقات کی جن کا تعلق بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ سے بتایا جاتا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اسرائیل اور امریکا کے مفادات کا محافظ ہے۔
پاکستانی اعلامیہ کے مطابق پاکستان، معاشی تعاون، علاقائی روابط کے فروغ اور خطے میں قیام امن کے لیے امریکا کے ساتھ وسیع البنیاد، طویل المیعاد اور پائیدار تعلقات کے قیام کا خواہاں ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان باقاعدہ اور منظم ڈائیلاگ کا عمل ہمارے دوطرفہ مفاد کے ساتھ ساتھ مشترکہ علاقائی مقاصد کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس اعلامیے میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ نے پاکستان اور امریکا کے درمیان موسمیاتی تبدیلی اور متبادل توانائی کے حوالے سے دو طرفہ مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کی تعریف کی اور بلوچستان میں آنے والے زلزلے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
لیکن اطلاعات یہ ہیں امریکا وینڈی شرمن جب بھارت پہنچیں تو بھارتی حکومت نے چین پاکستان اور افغانستان سے اپنے خوف کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ بھارت نے پاکستان کی سرحد سے 50 ہزار فوج کم کر کے چین کی سر حد پر لگا دی ہے اس لیے چین بہت بھاری تعداد میں اپنی افواج کو ارونچل پردیش کی سرحد پر پہچا رہا ہے اور بھارت نے رافیل سمیت اپنے سارے ہی ہتھیار کو چین کی سرحد پر پہچا دیے ہیں۔ چین نے اپنے مہلک ہتھیار بھارتی سرحد پر پہچا دیے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور چین کے اتحاد کو ہر صورت توڑا جائے اور پاکستان کو چین کا اتحادی نہ بننے دیا جائے۔ اگر چین اور پاکستان نے بیک وقت بھارت پر حملہ کر دیا تو بھارت کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ بھارت نے وینڈی شرمن کو یہ بھی بتایا کہ چین نے S-400 بھارتی سرحد پر تعینات کر دیا اور اب بھارت کے لیے بھی ضروری ہے وہ روس سے 5عدد S-400 جس کا اس نے 2020ء میں آرڈر دے رکھا ہے کو بھارت منتقل کر لیا جائے تاکہ چین اور پاکستان کے حملوں سے بچا جا سکے۔ بھارت نے 2020ء میں 5ارب ڈالرز سے زائد کی رقم روس کو دے رکھی ہے لیکن امریکا کی مداخلت کی وجہ سے اب تک حاصل نہیں کر سکا ہے۔ روس نے جنوری 2021ء بھارت کو S-400 دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن بھارت کی جانب سے سردمہری کی وجہ سے اب یہ آرڈر دسمبر 2021 تک کر دیا گیا ہے لیکن امریکا بھارت پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ روس سے S-400 سودا منسوخ کر دے لیکن بھارت امریکا کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ یہ ساری صورتحال پاکستان کو دوباہ جنگ میں جُھونکنے کی تیاری ہے۔