فرانس کو غیر معمولی عذاب کا سامنا

1168

فرانس کے عوام کی اکثریت کو اب یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ جب سے ایمیونل ماکروں برسر اقتدار آئے ہیں ملک عذاب کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایمیونل ماکروں نے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے فوراً بعد رسول اللہؐ کی توہین کی تھی اور آزادی تحریرکے نام پر اس مردود جریدہ چارلی ہیبڈوکی حمایت اور تعریف کی تھی جس نے رسول اکرمؐ کا کارٹون شائع کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی۔ پھر فرانسیسی صدر نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے اپنے آپ کو صہیونی نسل پرست ثابت کیا ہے اور یہودیوںکی مخالفت اور نفرت کو سنگین جرم قرار دینے کے لیے نہایت عجلت میں قانون منظور کیا۔ اس سلسلے میں وہ یورپ کے دوسرے ملکوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔ پھر بڑے منظم طریقہ سے۔ صدر ماکروں نے فرانس میں اسلام کے خلاف جنگ کا آغازکیا ملک میں بڑی تعداد میں مساجد کو بند کر دیا اور دینی مدارس پر پابندی عاید کر دی۔
صدر ماکروں کے ان اقدامات کے بعد فرانس کو ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم ممالک کے بائیکاٹ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں کارخانے بند ہو گئے اور ملک کساد بازاری کا شکار ہو گیا۔ برآمد 2017 کے مقابلے میں آدھی رہ گئی۔ غیر ملکی تجارت میں خسارہ 46 ارب یورو کے لگ بھگ رہا اور بے روزگاری آٹھ فی صد تک پہنچ گئی۔ حال ہی میں فرانس کو اس اہم سودے میں سخت زک اٹھانی پڑی جو اس نے آسٹریلیا کے لیے جوہری آب دوزوں کی تیاری کے لیے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ کیا تھا۔ یہ سودا 2016 میں طے پایا تھا لیکن پچھلے دنوں آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ یہ سودا منسوخ کردیا جس کی مالیت ایک سو ارب ڈالر تھی۔ اسی کے ساتھ فرانس کے اسلحہ ساز اداروں کو بہت سے اہم سودوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ فرانس کی وزارت دفاع کے مطابق گزشتہ سال فرانس کی اسلحہ کی برآمد میں اکتالیس فی صد تخفیف ہوئی جس کی وجہ سے فرانس کو کئی ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ جب سے ماکروں صدر بنے ہیں ان کی ناٹو کے ساتھ کشیدگی بڑھی ہے اور بریگزٹ کی وجہ سے برطانیہ کے ساتھ بھی سرد مہری نے فرانس کی تجارت کو اس بری طرح سے متاثر کیا ہے کہ عن قریب اس کی بحالی کا امکان نظر نہیں آتا۔
صدر ماکروں بنیادی طور پر نسل پرست اور اسلام دشمن ہیں اور سابق فرانسیسی نوآبادیاتی دور کی تجدید کے خواہاں ہیں جس میں مسلم ممالک کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ یہ چاہتے ہیں کہ یہ مسلم ممالک ایک بار پھر فرانس کے زیر اثر آجائیں تاکہ ان پر یہ اپنی حاکمیت نو آبادیاتی دور کی طرح سے جتا سکیں۔ لیکن اس وقت فرانس جس عذاب میں مبتلا ہے اس کی وجہ سے صدر ماکروں کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔