قائداعظم، رنجیت سنگھ کے مجسمے اور نازیبا ویڈیوز پر دوغلا پن

590

اتوار 26 ستمبرکو سینیٹر سرفراز بگٹی نے ٹوئٹر پر بانی پاکستان کے مجسمہ کو بم سے اڑانے کے واقعے پر کہا کہ قائداعظم کے مجسمہ پر حملہ دراصل نظریہ پاکستان پر حملہ ہے میں حکام سے اپیل کرتا ہوں اس واقعے میں ملوث لوگوں سے ویسے ہی نمٹا جائے جیسے زیارت میں قائداعظم کے گھر پر حملہ کرنے والوں سے نمٹا گیا تھا۔ ادھر وزیراعلیٰ جام کمال خان نے قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمے پر دستی بم حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور متعلقہ حکام کو حملہ کرنے والوں کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یاد رہے اسی سال اگست میں پنجاب کے سابقہ سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے مجسمے کو ایک نوجوان نے توڑ ڈالا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کی دیر تھی ہر طرف سے اس واقعہ کی مذمت کی صدائیں سننے کو ملیں یہاںتک کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے بھی ٹویٹ کیا۔Shameful this bunch of illiterates are really dangerous for Pakistan image in the world۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ریاست پاکستان کی ملکیت کسی بھی شے، املاک کو نقصان پہنچانا قابل مذمت اور قابل گرفت قانون حرکت ہے۔ رنجیت سنگھ کے مجسمے کے ساتھ ہونے والے واقعے پر پاکستان کے تمام مکاتب فکرکے افراد نے پر زور مذمت کی تھی، حکومتی اپوزیشن اراکین، پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ پروگرام کیے گئے جس میں اس واقعہ کی نا صرف پر زور مذمت کی گئی بلکہ نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے شدت پسند رویوں بارے سیر حاصل گفتگو بھی سننے، دیکھنے کو ملی۔ مگر افسوسناک پہلو یہ بھی کہ ہمارے وزیر اطلاعات جو سکھوں کے پسندیدہ حکمران کے مجسمے کی بے حرمتی پر تو ٹویٹ کرتے ہیں مگر ان کی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم کے مجسمے کی بے حرمتی پر کوئی ٹویٹ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کو بدقسمتی کہا جائے یا پھر دوغلا پن کہ سکھوں کے لیے قابل احترام رنجیت سنگھ (جس کے مسلمانوں کے ساتھ مظالم تاریخ کا حصہ ہیں) کے مجسمہ کے ساتھ ہونے وا لے و اقعہ پر ہماری سول سوسائٹی، میڈیا سیاسی، سماجی رہنما تو بڑے ہی شد و مد کے ساتھ مذمتی الفاظ کہتے ہوئے دکھائی دیے مگر افسوسناک پہلو یا دوغلا پن کہہ لیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمے کی بے حرمتی پر سوائے بلوچستان حکومتی وزرا کے کسی کو مذمت کرنے کی توفیق بھی نہ ہوسکی۔
پچھلے دنوں مفتی عبدالعزیز ویڈیوز اسکینڈل منظر عام پر آتے ہی مجھ سمیت پاکستانیوں کی اکثریت نے کھل کر اس واقعے کی ناصرف مذمت کی بلکہ مفتی عبدالعزیز کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے حکومت وقت پر اس قدر پریشر ڈالا گیا کہ پوری حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور مفتی عبدالعزیز کو چند دنوں میں قانون کی گرفت میں لے لیا گیا۔ راقم نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے مفتی عبدالعزیز کے خلاف کالم لکھے جس کی بناء پر راقم کو گالیوں، بددعاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ حالانکہ مفتی عبدالعزیز کی ویڈیوز تازہ نہیں بلکہ بہت پرانی تھیں۔ مفتی عبدالعزیز کے خلاف ویڈیوز کی بناء پر مقدمہ بنایا جاتا ہے، مفتی عبدالعزیز کے خلاف پوری شد ومد کے ساتھ قانونی چارہ جوئی شروع ہے اور قوی امکان ہے کہ بہت جلد مفتی عبدالعزیز اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گے۔ مگر دوسری طرف حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈران کے ترجمان اور صوبہ سندھ کے سابقہ گورنر محمد زبیر کی نازیبا ویڈیوز منظر عام پر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دن شور مچتا ہے، موصوف ان ویڈیوز کو جعلی اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔ حیران کن طور وہ میڈیا جس نے مفتی عبدالعزیز واقعہ پر سر پر آسمان اُٹھایا ہوا تھا، سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ نہ کوئی ٹاک شو اور نہ ہی کوئی مذمتی بیان۔ میڈیا کے کچھ حلقوں سے تو باقاعدہ طور پر محمد زبیر کے حق میں بیانات جاری کیے گئے۔ کچھ نے کہا کہ اگر رضا مندی سے کارروائی ہوئی تو پھر خیر ہے اور اگر اپنے سرکاری اثرورسوخ کی بناء پر یہ ہوا تو محمد زبیر کی جواب طلبی ہونی چاہیے۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ سیاسی لیڈران نے اس واقعے کو محمد زبیر کا ذاتی معاملہ قرار دے کر قصہ ہی ختم کردیا۔ میڈیا سے منسوب بہت سے سنیئر تجزیہ کار اور اینکر خواتین وحضرات محمد زبیر کے واقعہ پر مٹی پائو حکمت عملی اپنانے اور مذہب اسلام ہی کی تعلیمات کے مطابق گناہوں پر پردہ ڈالنے کا درس سنا رہے ہیں۔ کیا یہ ہمارا دوغلا پن نہیں ہے کہ اگر کوئی مذہبی شخصیت گناہ کر بیٹھے تو ہم فوراً اپنی توپوں کے رخ مذہب اسلام سے منسوب اداروں مساجد مدارس اور دینی شخصیات کے خلاف کردیتے ہیں اور ہر روز گولہ بھاری اور منہ سے زہر اُگلتے دیکھائی دیتے ہیں اور اس مذہبی شخصیت یا جماعت کے خلاف شدو مد سے قانونی گرفت کی باتیں کرتے ہیں۔ کیا کسی سیاسی، سماجی، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندگان نے مفتی عبدالعزیز کی طرح محمد زبیر کے خلاف اپنی زبان اور قلم سے احتجاج کیا؟ کیا کسی نے محمد زبیر کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور قانون کو حرکت میں لانے کا مطالبہ کیا؟ اسی طرح کیا کسی نے قائداعظم کے مجسمے کی بے حرمتی پر بھی رنجیت سنگھ کے مجسمے کی بے حرمتی جتنی تکلیف محسوس کی؟ اگر نہیں تو کیا اس کو منافقت کہا جائے گا یا پھر دوغلا پن؟ کیا ایسے رویوں کو مذہب اسلام اور بانیان پاکستان کے ساتھ بغض سے تشبیہ نہیں دی جائے گی؟ پہلی بات اگر تو محمد زبیر کی ویڈیوز حقیقت پر مبنی ہیں تو حکومت وقت کو ان کے ساتھ بھی مفتی عبدالعزیز جیسی قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے اور اگر یہ ویڈیوز جعلی ہیں تو محمد زبیر کو جعلی ویڈیوز بنانے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف مکمل قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے تاکہ پوری قوم حقائق سے آگاہ ہوسکے۔