چور چور سارے چور

957

پاناما پیپرز سے دنیا کو ہلا دینے والی تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کنسوریشم آف جرنلسٹس نے ’’پنڈوراپیپرز‘‘ کے نام سے ایک اور رپورٹ جاری کر دی ہے جس نے 2016 کی طرح اس مرتبہ بھی ساری دنیا میں ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان سمیت کئی ممالک کی اہم شخصیات کے مالیاتی رازکو فاش کیا گیا ہے اور عالمی مالیاتی رازوں، ٹیکس چوروں اور آف شور کمپنیوں پر اب تک کی سب سے بڑی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ پر دنیا کے 177ممالک سے 150 میڈیا اداروں کے 600صحافیوں نے کام کیا تھا اور ان صحافیوں نے ایک کروڑ 19لاکھ لیک شدہ دستاویزات سے مالیاتی خورد برد کی خبریں ڈھونڈ نکالی ہیں اور یہ پاناما پیپرز کی ایک کروڑ 15 لاکھ لیک شدہ دستاویزات سے زیادہ ہیں جس نے 2016 میں اشاعت سے دنیا بھر میں مالیاتی کرپشن، ٹیکس چوری ودیگر مالیاتی جرائم سے پردہ اٹھاتھا۔ پاناما پیپرز میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ کے مالیاتی امور بھی شامل تھے۔ اس رپورٹ کے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات کے بعد عدالت عظمیٰ کی جانب سے نواز شریف نااہل قرار دیے گئے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں نئے قوانین بنائے گئے اور پولیس کارروائیاں بھی کی گئیں۔ پاکستان کے علاوہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو اس اسکینڈل کی وجہ سے گھر جانا پڑا۔
پنڈورا پیپرزکے لیے لگ بھگ تین ٹیرا بائٹس ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور یہ ڈیٹا دنیا بھر میں مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی 14 کمپنیوں کا ہے جو دنیا کے مختلف 38ممالک کی حدود میں واقع ہیں۔ ان کمپنیوںکے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا اور اس ریکارڈ میں 1970 کی دہائی کا ریکارڈ بھی شامل ہے البتہ 1996 سے 2020 کے دور کی دستاویزات ان تحقیقات کا محور رہی ہیں۔ پنڈورا پیپرز کی رپورٹ کے مطابق 700سے زائد پاکستانیوں کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ جن میں پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین، مسلم لیگ ق کے رہنما اور وفاقی وزیر مونس الٰہی، تحریک انصاف کے سینئر رہنما، سابق وفاقی وزیر اورسینیٹر فیصل واوڈا، مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار کے بیٹے، پیپلز پارٹی سندھ کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر شرجیل میمن، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے خاندان کے نام، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علیم خان، وزیر اعظم کے سابق مشیر خزانہ اور ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان کے بیٹے، تحریک انصاف کو فنڈ فراہم کرنے والے اور امریکا میں مالی فراڈ میں نامزد عارف نقوی ودیگر کے نام شامل ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں فوج کے چند ریٹائرڈ عہدیداروں کے بھی نام کے علاوہ کاروباری شخصیت اور ایگزیکٹ کمپنی کے مالک اور اہم میڈیا اداروںکے مالکان کے بھی نام سامنے آئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کیا تھا اور ان کے قریبی ساتھیوں کا ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں نام آنا ان کی نیک نامی پر ایک بدنما دھبہ بن گیا ہے۔ وزیر اعظم نے خصوصی کمیٹی قائم کر کے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ادھر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ پنڈورا لیکس میں شامل افراد کی تحقیقات اور اثاثے ضبط کیے جائیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پنڈورا لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے ہیں، 2016 میں پاناما پیپرز میں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔ عدالت عظمیٰ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹیشن دائر ہوئیں۔ ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں لیکن عدالت عظمیٰ نے صرف چند ہی پاکستانیوں سے متعلق نوٹس لیا۔ حکومت پینڈورا لیکس میں شامل افراد کی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار کی تحقیقات کرے۔ پاناما اور پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا بھی مطالبہ اور ان تمام افراد کو پابند کیا جائے کہ وہ تین ماہ کے اندر ایف بی آر کو اپنے اثاثوں سے متعلق مطمئن کریں۔ بلاشبہ پنڈوراپیپرز کی شکل میں ایک نیا پنڈورا بکس کھل چکا ہے۔ دنیا بھر کے مقابلے میں ملک پاکستان میں اس کے اثرات اور بھونچال زیادہ آیا ہے۔ دنیائے صحافت میں کی جانے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے اور خفیہ اثاثوں تک رسائی ایک اعلیٰ تحقیق ہوتی ہے۔ پاناما پیپرز میں وزیراعظم نواشریف کا نام تک نہیں تھا لیکن انہیں سزا دی گئی اور وزارت عظمیٰ سے انہیں ہاتھ دھونا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان نے تحقیقات کا اعلان تو کیا ہے لیکن کوئی جے آئی ٹی بنتی نظر نہیں آرہی ہے۔ تحقیقاتی سیل دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جن وزراء کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں ان سے فوری استعفا لیں بغیر استعفا لیے شفاف تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔ پنڈورا پیپرز اور پاناما لیکس میں شامل تمام افراد کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے اور ملک کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔
تحریک انصاف کا نعرہ ہی کرپشن سے پاک پاکستان تھا لیکن وزیر اعظم کے قریبی ساتھی ہی کرپشن میں ملوث نکلے جس کا انہیں سیاسی طور پر نقصان بھی ہوا ہے اور دوسری جانب یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کرپشن کے اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں۔ چاہے مسلم لیگ ہو، پیپلز پارٹی یا حکمراں جماعت تحریک انصاف ہو۔ ان تمام جماعتوں نے عوام کی خون پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اربوں روپے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کیے گئے اور جائز وناجائز قومی دولت کو سوئس بینکوں میں جمع کرائے گئے۔ پاناما لیکس آئی تو جے آئی ٹی تشکیل پائی گئی، عدالت عظمیٰ کا بنچ قائم ہوا، نیب سرگرم ہوگئی لیکن آج ریاست مدینہ کے دور میں پاناما بنچ اور نیب کہاں ہیں؟ پہلے کے مقابلے میں آج زیادہ پاکستانیوں کے آف شورکھاتے اور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔ حکومت نے تحقیقات کا اعلان کیا ہے لیکن خود ملزم اور خودی کوتوال اب یہ سسٹم نہیں چلے گا۔ چائنا نے کرپشن کرنے والے اپنے ملک کے وزراء کو سرعام عام تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ کپتان ہمت کریں اور ڈی چوک پر ہی دو تین لٹیروں کو لٹکا دیں تو آئندہ کسی کی ہمت اور جرأت نہ ہوسکے گی کہ وہ بے دردی اور ڈھٹائی کے ساتھ قوم کی دولت کولوٹے اور انہیں بیرون ملک منتقل کر سکے۔