خان صاحب کی مہارت

495

کبھی کبھی تو یوں لکتا ہے کہ عمران خان کی بولنگ نے ان کی وزارت عظمیٰ کو کلین بولڈ کردیا ہے اور یہ گمان یقین میں تبدیل ہوتا جارہا ہے کہ خان صاحب کی کرکٹ کی مہارت نے عوام کی جیبیں خالی کرانے کی مہارت کو شرمندہ کردیا ہو۔ دنیا بھر میں کہیں بھی کورونا ویکسینیشن زبردستی نہیں لگائی جارہی ہے البتہ کئی ممالک ویکسین لگوانے والوں کو خوش کن ترغیبات ضرور دے رہے ہیں اور یہ ترغیبات ایسی ہیں کہ ویکسین سے ڈرنے والے بھی خوشی خوشی ویکسینیشن کروا رہے ہیں کیونکہ ویکسین لگوانے کے بعد انہیں پلاٹ اور دیگر مراعات دی جارہی ہیں مگر وزیراعظم عمران خان نے ویکسین نہ لگوانے والوں پر ایسی ایسی پابندیاں لگوادیں ہیں جو انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں ان پابندیوں کے نتیجے میں عوام پانچ سو روپے دیکر ویکسینیشن سرٹیفکیشن کا حصول زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
ہم اکثر وکلا سے یہ گزارش کرتے رہے ہیں کہ ایک ہڑتال ہائی کورٹ کے Left over اور کمرۂ عدالت سے باہرکھڑے ہونے والے وکلا اور سائلین کے حق میں بھی کریں کسی نے بھی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا مگر یہ جان کر خوشی ہے کہ کسی وکیل نے زبردستی ویکسینیشن کرانے کے حکم کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے مان لیتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت ذہنی اور اقتصادی طور پر کمزور ہے مگر وہ اسکول بند کرانے کے ساتھ یہ حکم بھی صادرکرسکتے ہیں کہ جب تک اسکول بند رہیں گے۔ فیس نہیں لی جائے گی۔
اعلیٰ عدالتوں اور سول عدالتوں میں سماعت ہونے والے مقدمات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کی سماعت اور ان پر بحث ممکن ہی نہیں سو، جج اور جسٹس صاحبان پیشیاں دے کر اپنی ذمے داریوں سے بری ہوجاتے ہیں اس ضمن میں ہماری گزارش ہے کہ کوئی وکیل یا وکلا تنظیم عدالت عظمیٰ سے گزارش کرے کہ ڈیڑھ دوسو مقدمات سماعت کے لیے پیش کرنے کے بجائے چالیس پچاس پیش کیے جائیں اور یہ پابندی لگائی جائے کہ ان کی سماعت ہرحال میں ہونی چاہیے ہم نے ایسے جج صاحبان بھی دیکھے ہیں جو چار بجے کے بعد میں سماعت کرتے ہیں اور وکلا کو بحث کرنے کا پابند کرتے ہیں خدا جانے وزیراعظم عمران خان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ زبردستی ویکسینیشن کروانے کا حکم کرپشن اور بدعنوانی کا راستہ ہموار کردے گا۔ ویکسین لگوانے کی فیس ایک سو روپے ہے مگر یہ خبر بھی عام ہے کہ پانچ سو روپے ادا کرکے ویکسین لگوائے بغیر ویکسینیشن سرٹیفکیٹ حاصل کیا جاسکتا ہے اس ضمن میں ایک اور معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے شوگر کے مریض ویکسینیشن کے لیے جاتے ہیں تو انہیں ویکسینیشن کے عمل سے نہیں گزارہ جاتا اور یوں ان کے بہت سے کام ناممکن ہوجاتے ہیں اور وہ پانچ سو روپے کی قربانی دے کر ویکسینیشن سرٹیکیفیٹ حاصل کرلیتے ہیں اس پس منظر میں مہنگائی اور بے روزگاری سے انکار کرنا ایک شرمناک عمل ہے سوال یہ ہے کہ خان صاحب ایسی پابندیاں کیوں لگا رہے ہیں جو کرپشن کو فروغ دینے کا باعث بن رہی ہیں شوگر کا کوئی مریض کسی غم یاخوشی میں شرکت کے لیے جانا چاہتا ہے مگر اسے ویکسین اسی لیے نہیں لگائی گئی کہ وہ شوگر کا مریض ہے اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ پانچ سو روپے دے کر ویکسینیشن سرٹیفکیٹ حاصل کرلے اور عمران خان زندہ بادکے نعرے لگا کر رخت سفر باندھ لے۔
بجلی کا بل ہو یا گیس کا ایسے ایسے ٹیکس لگے دکھائی دیتے ہیں کہ آدمی کے ہوش اڑجاتے ہیں عمران خان کرکٹ کے بہترین کھلاڑی تھے اور وطن عزیر میں ان کی مقبولیت اتنی تھی کہ وہ ملک کے وزیراعظم بنائے جاسکتے تھے سو، حکیم سعید مرحوم کے قول کے مطابق ان کے سرپرستوں نے انہیں کمیٹی کمیٹی کھیلنے کے گر سکھائے اور جب وہ کمیٹی کمیٹی کھیلنے میں بھی ماہر ہوگئے تو انہیں کھیل کے میدان سے سیاست کے میدان میں اتاردیا اور انہیں ’’اوتار‘‘ بنانے کے لیے میڈیا کی خدمات حاصل کی گئیں لگاتار ناکامیوں کے بعد بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور اب لگاتار ناکامیوں کے بعد یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی کہ کھیل اور سیاست کے میدان میں بڑا فرق ہوتا ہے مخالف ٹیم کے رنز میں اضافے کو روکنے کے لیے کرکٹ کی گیند کو چپا کر اپنا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے مگر سیاسی گیند کو چپانے سے اکثر دانت کھٹے ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی ٹوٹ بھی جاتے ہیں عمران خان جب سے برسر اقتدار آئے ہیں ان کے اقتدار پر شک و شبے کے بادل چھائے ہوئے ہیں اس کی تائید ان کے کھٹے ہونے والے دانت بھی کر رہے ہیں شاید اس پس منظر میں کہنے والوں کا یہ کہنا درست بھی ہوسکتا ہے یوں بھی سیاست کو امکانات کا کھیل کہا جاتا ہے کہنے والوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب دیانتداری کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دانٹ کھٹے ہوجائیں تو آدمی کھانے پینے کے قابل نہیں رہتا یہ اور یہی حال عمران خان کا بھی ہے، سچ یہ بھی ہے کہ عمران خان کے دانت کھٹی چیز کھانے سے کھٹے ہوئے ہیں اور پنڈورا باکس میں خان صاحب کے دانت کھٹے کرنے والوں کے نام بھی بتادیے ہیں مگر عمران خان کو اس معاملے بھی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ عدالتیں دانت کھٹے کرنے والوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا کرتیں اب یہ تو قانون اور آئین کا کوئی ماہر ہی بتاسکتا ہے کہ اس معاملے میں عدلیہ کی کچھ کرنے کی مجاز ہے یا نہیں پاناما لیک میں لگ بھگ پانچ سو پاکستانیوں کے نام شامل تھے مگر ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا البتہ الیکٹرونک میڈیا اور اینگر کے بینک بیلنس میں اضافہ ہوجائے گا اور عوام ان کے تبصرہ سن سن کر اپنی شہریت پر شرمندہ ہوتے رہیں گے۔