خوش خطی

848

کبھی ہم بھی خوبصورت تھے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہماری خوشخطی کی دھوم ساری جامعہ میں تھی۔ جب بھی کوئی مہم۔ تحریک یا الیکشن مہم چلتی۔ احباب ہمیں ہوسٹل کے ایک کمرے میں قید کردیتے۔ ہمارے چاروں طرف رنگ برنگے مارکروں کا ڈھیر لگادیتے اور پوسٹر سائز کاغذوں کا بھی۔ ہمارے ساتھ ہی کئی اور ساتھی بھی پکڑ کر لائے جاتے اور قید کردیے جاتے۔ چائے وائے کا دور مسلسل چلتا رہتا۔ روز کا معمول ہوتا کہ رات عشاء سے لیکر صبح نماز فجر تک ہم تمام ساتھی سیکڑوں پوسٹرز لکھ ڈالتے۔ ایک سے ایک نابغہ ٔ روزگار ساتھی جن میں مرحوم اسلم کلہوڑی۔ شفیع نقی جامعی اور طاہر منصوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ایسے ایسے خوبصورت انداز میں لکھتے کہ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ ایسا لگتا کہ کسی نے چھاپ دیا ہے۔ جیسے ہی پوسٹرز تیار ہوتے دیگر ساتھیوں کو دے دیے جاتے کہ پوری جامعہ کراچی میں لگادیے جائیں۔ بس پھر کیا تھا صبح جیسے ہی پوائنٹ کی بسیں جامعہ میں داخل ہوتیں تو چاروں طرف رنگین پوسٹروں کی بہار ہر طرف نظر آتی۔ اور پوری جامعہ گل و گلزار ہوجاتی۔ اس زمانے میں سائکلو اسٹائل کا رواج بھی تھا لہٰذا ہم ہی لوگ سائکلو اسٹائل پر بھی اپنی خوشخطی کے جوہر دکھاتے۔ اور یہ پمفلٹ پوری جامعہ میں تقسیم کردیے جاتے تھے۔ یہ خوشخطی اس بات کی مرہون منت تھی کہ ہم لوگ بچپن میں تختی لکھ لکھ کر ہاتھ توڑ لیتے تھے۔
صبح تختی شام تختی روشن تیرا نام تختی
ہمارے اساتذہ کہتے تھے کہ اس وقت تک تختی لکھتے رہو جب تک کہ تمہارے ہاتھ نہ ٹوٹ جائیں۔ یعنی اتنا لکھو کہ ہاتھ شل ہوجائیں۔ تختی پر لکھنے کے لیے تو خیر سیٹھے کا قلم استعمال ہوتا تھا۔ مگر کاپی پر لکھنے کے لیے جے نب برائے انگریزی اور زیڈ نب برائے اردو استعمال ہوتی تھیں۔ برسوں بعد جب کمپیوٹر کا چلن عام ہوا۔ اور ہم بھی تیس سال سے زائد اس پروفیشن میں کام کرتے رہے۔ تو ساری لکھت پڑھت کمپیوٹر پر ہی ہوتی رہی۔ کمپیوٹر ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا بنارہا۔ ظاہر ہے ہاتھ سے لکھنے کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلاگیا۔ یوں ہماری خوشخطی کا ستیاناس بلکہ سوا ستیاناس ہوگیا۔ اب یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر بھی ہم سے اچھا لکھ لیتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہماری خوشخطی کا یہی حشر نشر ہونا تھا تو اس سے اچھا تھا کہ ڈاکٹر ہی بن جاتے۔ کم از کم خراب خط یا خط شکستہ (وہ خط جو شکست کھا چکا ہو جیسے کہ ہم) کا طعنہ تو سننے کو نہ ملتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تقریبات میں دینے کے لیے گھر والے اب بھی لفافے ہمارے ہاتھ ہی سے لکھواتے ہیں۔ اور ہم بھی کوشش کرتے ہیں کہ خط شکستہ کو شکست سے بچاتے ہوئے خط کشیدہ میں تبدیل کردیں۔ ہمارے لکھے لفافے اگر بے نام یا گمنام بھی ہوں تو خاندان کے لوگ ہماری خوشخطی سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ لفافہ کس نے دیا ہے۔
سارے جہان میں دھوم ہماری خوشخطی کی ہے
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دارالعلوم کراچی کے تحت اسلامک بینکنگ میں پی جی ڈی کررہے تھے اور اردو اور انگریزی میں امتحان دے رہے تھے۔ چونکہ ہم ریٹائرمنٹ کے بعد پڑھ رہے تھے اس لیے سارے ہم جماعت ہم سے آدھی عمر کے تھے بلکہ اکثر اساتذہ بھی عمر میں ہم سے چھوٹے ہی تھے۔ ایک دن ایک استاد سے نہ رہا گیا تو ہماری بزرگی کا احترام کرتے ہوئے بولے ’’خواجہ صاحب آپ کا لکھا پڑھنا تو جوئے شیر لانا ہے‘‘۔ ہم نے بھی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
برا ہو اس کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا۔ اس نے ہاتھ سے لکھنا نہ صرف چھڑا دیا بلکہ بھلا دیا۔ اب ایک اور مصیبت موبائل کی شکل میں نازل ہوچکی ہے۔ اب بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ تختی کا تو آج کے بچوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کس چڑیا کا نام ہے۔ اب تو بچے بال پوائنٹ کا استعمال جانتے ہیں۔ یا لیپ ٹاپ اور موبائل سے واسطہ ہے۔ ایسے میں بچے لکھنے کے قابل ہی نہیں رہ گئے۔ خوشخطی تو دور کی بات ہے۔ البتہ دارالعلوم اور مدرسوں میں اب بھی تختی کا رواج ہے اور خوشخطی پر زور ہے۔ اسی لیے اسکولوں کے طلبہ کے مقابلے میں مدرسوں اور دارالعلوم کے طلبہ کی لکھائی بہت بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ہے۔ چلتے چلتے ایک قصہ بھی سن لیجیے۔ ایک گائوں میں ایک منشی رہتا تھا جو لوگوں کے خطوط لکھ کر گزر اوقات کرتا تھا۔ ایک دن ایک شخص منشی کے پاس آیا اور اس سے خط لکھنے کی فرمائش کی۔ منشی نے کہا کہ آج میں خط نہیں لکھ سکتا کیونکہ میری ٹانگوں میں درد ہے۔ اس شخص نے تعجب سے پوچھا کہ خط لکھنے سے آپ کی ٹانگوں کا کیا تعلق؟ منشی نے معصومیت سے کہا کہ خط پڑھنے کے لیے بھی لوگ مجھے ہی بلاتے ہیں۔ باقی معاملہ قارئین آپ سمجھ دار ہیں خود ہی سمجھ لیجیے۔