ہندوتوا کے جبڑوں میں جکڑا کشمیر – سید عارف بہار

861

بھارتی وزارتِ داخلہ نے اپنی ویب سائٹ پر 38 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر میں بہنے والی دودھ اور شہد کی فرضی نہروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر سب سے اہم اور چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کو ہندوتوا مائنڈ سیٹ کو ایک سیاسی چہرہ دینے والے لیڈر راما پرساد مکھر جی کے خواب کی تعبیر کہا گیا ہے۔ ایک انگریزی نیوز پورٹل ’’دی کشمیر والا‘‘کے مطابق اس فیصلے کو ایک ودھان، ایک پردھان، ایک نشان کے اُس خواب کی تعبیر کہا گیا ہے جو راما پرساد مکھر جی نے دیکھا تھا۔ اس رپورٹ میں ان دعووں کا ایک طومار باندھا گیا ہے جن کے مطابق پانچ اگست کے بعد کشمیر میں تعمیر وترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ریاست کا اپنا جھنڈا، آئین اور زمینوں اور ملازمتوں کو تحفظ دینے والے قوانین ختم کردئیے گئے ہیں۔ ان میں 164 قوانین ختم کیے گئے ہیں، جبکہ 167 کو ترامیم کے ساتھ اپنایا گیا ہے۔

کشمیر کے آزاد ذرائع اور گپکار الائنس نے ان دعووں کو قطعی مسترد کیا ہے، اور ان کے مطابق پانچ اگست کے بعد کشمیر کی سیاحت، تجارت، ہینڈی کرافٹ، زراعت، ہارٹی کلچر سیکٹرز بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ملازمتوں کے مواقع محدود ہوجانے کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ گئی ہے اور نوجوانوں کو منظم انداز سے منشیات کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔

بھارت اگر اس ساری صورتِ حال کو راما پرساد مکھرجی کے خوابوں کی تعبیر کے انداز میں دیکھ رہا ہے تو پھر یہ تعمیر وترقی سے آگے کی بات ہے، اور واقعتاً ایسا ہی ہے۔ راما پرساد مکھرجی پنڈت نہرو کی پہلی کابینہ کا حصہ تھے۔ یہ بنگال کے ایک سخت گیر ہندو تھے جو ہندو بالادستی پر یقین رکھنے کے علاوہ بھارت کو ایک ہندو راشٹریہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے پنڈت نہرو سے اختلاف کی بنیاد پر کابینہ سے استعفیٰ دیا۔ پنڈت نہرو کانگریس میں سیکولرازم اور سوشلزم کے علَم بردار تھے، تو سردار پٹیل اور شیاما پرساد مکھرجی جیسے لوگ ہندوتوا اور سخت گیری کے علَم بردار تھے۔ کشمیر کو خصوصی شناخت دینے پر نہرو سے ان کا اختلاف ہوا، اور یہی بات آگے چل کر استعفے کی وجہ بنی۔ مکھرجی نے 1950ء میں ’’بھارتیہ جنا سنگھ پارٹی‘‘ بنائی، اور ایک سال بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے تعاون سے بھارتیہ جنتا پارٹی تشکیل دی۔ اس پارٹی کے مقاصد میں کشمیر کی خصوصی شناخت کا خاتمہ شامل رہا۔ پنڈت نہرو نے کشمیر کو آئین میں خصوصی شناخت دینے کی طرف پیش قدمی کی، جس کا وعدہ وہ مہاراجا ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ سے کرچکے تھے۔ اس پر انتہا پسند ہندو سیخ پا تھے، اور راما پرساد مکھرجی نے ’’ایک ودھان، ایک پردھان‘‘ کا نعرہ یعنی ایک قوم، ایک آئین، ایک جھنڈا کا نعرہ لگاکر کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ شیخ عبداللہ کی حکومت نے راما پرساد مکھرجی کو کشمیر کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا، اور ان کی موت جیل میں ہی واقع ہوئی۔ اس موت کو بہانہ بناکر انتہا پسندوں نے دہلی میں شیخ عبداللہ کی برطرفی کے لیے سازشوں کا جال بُننا شروع کیا۔ 1953ء میں یہ سازشیں کامیاب ہوئیں اور شیخ عبداللہ کو عہدے سے برطرف کرکے قید کرلیا گیا، اور اس کے بعد ریاست کی خصوصی شناخت کے خاتمے کی طرف تیز رفتار پیش قدمی کا آغاز ہوگیا۔ اس سفر کی تکمیل 5 اگست 2019ء کو ہوگئی۔ کشمیر میں ’اسٹیٹس کو‘ توڑنے اور شناخت کو مرحلہ وار بدلنے کے لیے 164ریاستی قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کردیا گیا ہے، جبکہ 167قوانین کو ترمیم واضافے کے بعد دوبار نافذ کیا گیا ہے۔ اب آر ایس ایس کی شاخیں وادی کشمیر میں کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نامی فاشسٹ تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت نے سرکاری چھتر چھائے میں حال ہی میں جموں کے علاقے کا تین روزہ دورہ کیا ہے جو آنے والے دنوں کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی ہے۔

بھارت نے طویل سفر اور مشقت کے بعد اپنا ہدف حاصل کرلیا، مگرکشمیر اور پاکستان اپنے ہدف سے کوسوں دور ہیں۔ اب کشمیر ہندوتوا کے خونیں مگرمچھ کے جبڑوں میں جکڑا گیا ہے۔ یہ رپورٹ اگر کسی سیاسی جماعت کی ہوتی تو اسے نعرے بازی اور کریڈٹ کا چکر کہا جاسکتا تھا، مگر یہ حکومتِ وقت کی رپورٹ ہے جس سے بھارت میں اعلیٰ ترین فیصلہ سازوں کی ذہنیت واضح ہورہی ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ بھارت کشمیر پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ وہ کشمیر کو مکمل ہضم کرنے کے بعد اسے قبل از اسلام کی ہندو ریاست کے طور پر بحال کرنا چاہتا ہے۔ اب تو سخت گیر ہندو اور کشمیری پنڈت یہ کہنے لگے ہیں کہ کشمیر کا اسلام سے کیا تعلق؟ یہ تو جبری طور پر مذہب بدلنے والی آبادی تھی، جس کا بادشاہ مسلمان ہوا تو پوری آبادی اُس کے ساتھ ہی مسلمان ہوگئی۔ یہ وہی اسٹائل ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں اپنایا ہوا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ اور اس جکڑ بندی کو اب خوبصورت تقریروں سے توڑنا اور بدلنا ممکن نہیں رہا۔ کشمیر کی معروف صحافی نعیمہ احمد مہجور نے وزیراعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی میں خوبصورت اور استدلال بھری تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پلوامہ کی ایک خاتون نے یوٹیوب پر عمران خان کی تقریر سننے کے بعد کہا کہ اسے اس تقریر کی اثر پذیری کا یقین اُس وقت آئے گا جب اس کے گھر کے ساتھ فوجی چھائونی ختم ہوگی اور سرِشام ہی اس بستی کو خاردار تاروں میں مقید کرنے کا عمل رک جائے گا۔ گویا کہ زمینی حقائق کو بدلے بغیر معاملات آگے نہیں چل سکتے۔ بھارت اپنے فیصلے پر قائم اور ہدف کی جانب رواں دواں ہے۔ اب اس عمل کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا ہے؟ اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔کم ازکم بھاری بھرکم ڈوزئیر اور تقریروں سے تو مگرمچھ کے جبڑوں کو ہرگز توڑا نہیں جا سکتا۔ اس کے لیے بہرحال جبڑوں کو اس انداز سے پکڑنا لازمی ہوگا کہ کشمیر کو نگلنے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکے۔ اب کشمیری عوام کو اس لمحے کا انتظار ہے۔

(This article was first published in Friday Special)