پاکستان کے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی رخصت ہوگئے

449

اور پھر ایک دن وہ بھی آگیا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے تمام شکوے اور شکایتوں کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ قوم کو ان سے والہانہ محبت تھی وہ پاکستان اور اس کی کل آبادی کے محسن تھے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی جدوجہد میں اور بنانے کے بعد انہیں کچھ بھی نہیں ملا، حکمرانوں نے تو ان کے ساتھ ایسی زیادتیاں کیں جیسے انہوں نے ملک پر کوئی احسان نہیں بلکہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہو۔ یہ بات بھی سو فی صد درست ہے کہ ملک کو ایٹمی صلاحیت دینے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کی حکومتوں نے اہم کردار ادا کیا تھا ان حکومتوں ملک ایٹمی طاقت بنا اس کا برملا اظہار بھی کیا گیا۔ لیکن نجانے کیوں پرویز مشرف ڈاکٹر عبدالقدیر کے اس بڑے کارنامے سے خوش نہیں تھے شاید اسی وجہ سے ڈاکٹر قدیر کو عوام ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان سے بھی دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خود کہا کرتے تھے کہ ان کی بڑی بیٹی ان کے گھر سے دو سو گز کی دوری پر رہا کرتی تھی مگر اسے اور اس کے بچوں کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہہ چکے تھے کہ ان کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان المعروف اے کیو خان بلاشبہ مخلص مہاجر تھے، وہ آخر وقت تک حکمرانوں سے شکوے کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے بستر مرگ سے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو خط میں لکھا تھا کہ ’’وزیر ِاعظم سمیت کسی کو میری یاد تک نہیں آئی، انہوں نے اپنے خط میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کہا کہ آپ کے سوا وزیر ِ اعظم اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو میری یاد تک نہ آئی‘‘۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے بھیجے گئے گلدستے کا شکریہ ادا کیا، ڈاکٹر عبدالقدیر نے 4 اکتوبر کو اسلام آباد سے تحریر کیے گئے اس خط میں لکھا کہ میں اب پہلے سے بہت بہتر محسوس کررہا ہوں، میں شکر گزار ہوں کہ میرے صوبے کے وزیراعلیٰ نے مجھے مشکل وقت میں یاد رکھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر اتوار دس اکتوبر کو ملک کے لیے کی گئی اپنی تمام جدوجہد اور حکمرانوں سے ان کو موجود تمام شکوے اور شکایتوں کے ساتھ جہان فانی کوچ سے کر گئے۔ اب صرف ان کی باتیں اور یادیں رہ جائیں گی۔ مرحوم ایک ادبی اور عسکری ذہنیت کی شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد ملک کا تحفظ اور ترقی تھا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنی سیاسی جماعت تحریک تحفظ پاکستان کی بنیاد 2013 میں رکھی تھی اور 2013 عام انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔ تاہم شاید انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ ملک میں سیاست مخلص نہیں بلکہ مفاد پرستانہ ذہن رکھنے والے لوگوں کا کام ہے یہاں سیاست میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو سیاسی طور پر شاطر اور مفاد پرست ہو۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے حکمرانوں سے شکایات سے بھرپور احساسات فطری تھے لیکن ان کے جنازے میں وزیراعظم عمران خان آرمی چیف جنرل باجوہ سمیت دیگر اہم شخصیات کی عدم موجودگی سوال کر رہی ہے کہ کیا یہی صلہ ہوتا ہے ملک اور قوم کی خدمت کا؟
1936 میں انڈیا کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا تعلق پشتون خاندان اورکزئی سے تھا۔ ان کے بہن بھائی 1947 میں انڈیا سے پاکستان ہجرت کر چکے تھے تاہم ڈاکٹر اے کیو خان انڈیا میں 1951 میں اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوئے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور سیکورٹی پالیسی کے حوالے سے کتاب لکھنے والے فیروز خان اپنی کتاب ’’ایٹنگ گراس دی میکنگ آف پاکستانی بم‘‘ کے مطابق 1972 جب انڈیا نے ایٹمی ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کیں اور حکومت پاکستان کو خطوط ارسال کیے۔ انہوں نے 1974 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اس حوالے سے دو خطوط ارسال کیے جس کے بعد انہیں وزیراعظم سے ملاقات کے لیے اسلام آباد بلایا گیا۔ اس ملاقات کے بعد اے کیو خان دو سال تک ہالینڈ ہی میں رہے اور 1976 میں باضابطہ طور پر پاکستان ایٹمی بم کے منصوبے میں شامل ہوئے۔
1979 میں ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جاسوسی کے الزامات کے حوالے سے مقدمہ بھی چلایا، جس میں ان پر عدم پیشی کی بنیاد پر قید کی سزا اور جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ بعدازاں عدالت نے ان کی اپیل پر ثبوت کی عدم دستیابی کی بنا پر سزا واپس کر لی۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ابتدائی طور پر ڈاکٹر خان نے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) میں ملازمت اختیار کی تھی جس کے بعد وہ اسکالر شپ کے تحت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جرمنی اور پھر ہالینڈ سے مٹیلر ٹیکنالوجی میں ایم ایس اور بعدازاں انہوں نے بلجیم میں میٹلرانرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان سوشل ویلفیئر کے کاموں کے لیے بھی جانے جاتے تھے اور متعدد غیر سرکاری تنظیموں اور سوشل ورک کے کام میں پیش پیش ہوتے۔ وہ صحافیوں اور لکھاریوں سے میل ملاقاتوں سے کبھی نہیں کترائے۔ وہ مقامی صحافیوں سے ایسی باتیں بھی کر جاتے جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بھی بن جاتیں۔ یہی وجہ تھی کہ 1979 میں اس وقت کے صدر ضیا الحق پاکستان کے جوہری پروگرام کو خفیہ رکھنے کے خواہاں تھے جس کی وجہ سے ڈاکٹر اے کیو خان کی مقامی صحافیوں سے ملاقاتیں صدر ضیا کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ ’1979 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مقامی صحافیوں سے ملاقات میں یہ بیان دیا تھا کہ امریکا کو علم ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام کتنا کامیاب ہے‘۔ ان کے اس بیان پر سابق صدر ضیا الحق نے انہیں ملاقات کے لیے بلایا اور سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے انہیں یہ بیان واپس لینے کی ہدایت کی، جس کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان نے چند صحافیوں سے رابطہ کر کے بیان پر وضاحت جاری کی۔ ڈاکٹر اے کیو خان کو 1989 میں ہلال امتیاز اور 1996 میں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ سال 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کے بعد 1999 میں ایک بار پھر نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ ماضی میں کی گئی ناانصافیوں کا کس طرح ازالہ کرتی ہے اور ان کے خاندان کے ساتھ رویہ اختیار کرتی ہے ڈاکٹر قدیر کو حکمرانوں کے روا رکھے گئے رویے سے شکایت رہی یہی وجہ ہے کہ انہیں قوم کے لیے کیے جانے والے بڑے کام کا پچھتاوا بھی رہا، وہ کہا کرتے تھے میں سوچا کرتا ہوں کہ میں نے اس کی جگہ کچھ اور کر دیا ہوتا تعلیم اور حاصل کر لیتا اور کالجز میں پڑھ لیا کرتا تو زیادہ بہتر تھا۔ ان کا کہنا تو یہ تھا کہ مجھے بیٹیوں سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی حالاں کے میری ایک بیٹی میرے گھر سے صرف دو سو گز کے فاصلے پر رہا کرتی تھی۔ ڈاکٹر قدیر قوم اپنی وصیت میں کہاکہ وہ میری مغفرت کی دعا کیا کریں۔