چیئرمین نیب: کیوں روکا جارہا ہے

572

ایک ٹی وی پرگرام میں ملک کے معروف قانون دان اعتزاز احسن کہہ رہے تھے کہ حکومت ایک دن کے لیے بھی چیرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کرسکتی۔ 8اکتوبر کو نیب چیرمین جاوید اقبال ریٹائر ہو جائیں گے۔ ہاں اگر آرڈیننس کے ذریعے توسیع کی گئی تو اپوزیشن اس مسئلے کو کورٹ میں لے جاسکتی ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ چیرمین نیب جو پی پی پی اور ن لیگ کی مشاورت سے اس منصب پر فائز ہوئے تھے اب وہ تحریک انصاف کی آنکھ کا تارا کیسے بن گئے۔ شاید اس لیے کہ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی فائلیں نہیں کھولی گئیں۔ سرکاری حلقوں سے وابستہ افراد اور وزراء ان کی دیانت داری اور پچھلے تین سال کے عرصے میں پانچ سو ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی ہے جو قومی خزانے میں جمع کرائی گئی ہے جس کا چرچا بڑے زور شور سے کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی سامنے رہنا چاہیے کہ قومی خزانے میں جمع کرائی گئی رقم کے مقابلے میں کتنی رقم لوگوں پر چھوڑ دی گئی۔ ایک مثال ہے کہ اگر کسی پر سو ارب روپے کا کیس ہے تو نیب سے یہ پلی بارگین ہوتی ہے کہ وہ سو ارب کے مقابلے میں پانچ ارب روپے قومی خزانے جمع کرادے تاکہ بقیہ 95ارب روپے اپنے لیے حلال کرلیں۔ جبکہ وہ تمام رقوم اس نے ناجائز طریقے سے جمع کی تھیں اب اس کے لیے جائز ہو گئیں۔ اس طرح ایک اندازے کے مطابق 500ارب روپے پلی بارگین کی رقم 10ہزار ارب روپے کرپشن کے مقابلے میں وصول کی گئی ہے۔ پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے ایک کرپٹ آدمی جب پکڑا جاتا ہے تو اس کے تمام کرتوت سامنے نہیں آتے۔ وہائٹ کالر جرائم میں ایک مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہر کرپشن کے ثبوت نہیں مل پاتے اس لیے اگر کوئی فرد 100ارب روپے کی کرپشن میں پکڑا جاتا ہے۔ لیکن پتا نہیں کتنے اربوں اور کھربوں کی وہ رقم ہو گی جو نیب کے علم میں اس لیے نہیں آتے کہ اس کے کوئی ثبوت نیب کے ہاتھ نہیں آتے اور پھر جو سو ارب کی کرپشن پکڑی جاتی ہے اس میں بھی 95 ارب روپے اسے واپس مل جاتے ہیں۔
نیب کے چیرمین جاوید اقبال کو تو از خود بھی ریٹائر ہو جانا چاہیے کہ انہوں نے جو نیک نامیاں کمائی ہیں اسی لیے اچھے اور عروج کے زمانے میں اپنے منصب سے سبکدوش ہو جائیں تو وہ تادیر یاد رکھے جائیں گے، جس طرح ایک کرکٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے عروج کے زمانے میں کرکٹ سے ریٹائر ہو تو زیادہ اچھا ہے صدر پاکستان نے اس حوالے سے جو آرڈیننس جاری کیا ہے وہ مکمل ایک پیکیج کی شکل میں ہے جس میں نیب قوانین میں کچھ اصلاحات تجویز کی گئیں ہیں اور نیب چیرمین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ چیرمین اس وقت تک کام کرتے رہیں گے جب تک کہ نئے چیرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا۔ نئے چیئرمین کے تقرر کے لیے وزیر اعظم کو قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرکے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے جس ادارے میں قائد حزب اختلاف کی کرپشن کا کیس چل رہا ہو اس ادارے کی چیرمین شپ کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہیں ہوگی پھر یہ پارلیمنٹ میں جائے گا اور وہاں پر فیصلہ ہو گا۔ اپوزیشن نے یہ بل مسترد کردیے ہیں۔ حکومت نے بل میں جو اصلاحات تجویز کی ہیں اس میں ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کرپشن کے ملزم کو ضمانت کے لیے اتنی رقم جمع کرانا ہوگا جتنی رقم کے الزام وہ گرفتار ہوا ہے یعنی اگر کسی کے اوپر 100ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے تو ضمانت کے لیے اس کو 100ارب روپے جمع کرانے ہوں گے۔
اس سے قبل اپوزیشن نے 36نکات پر مشتمل نیب اصلاحات کی تجاویز حکومت کو پیش کی تھی اسے حکومت نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ نیب اصلاحات کی آڑ میں اپوزیشن والے این آر او حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک ٹی وی پروگرام میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ یہ تجاویز ایک ادارے کی طرف سے آئی ہیں ان کا اشارہ وضح طور پر فوج کی طرف تھا لیکن عمران خان نے ان تجاویز کر یکسر مسترد کردیا ہے اب نہ معلوم یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ حکومت جو تجاویز بل کی شکل میں پیش کرتی ہے اسے اپوزیشن مسترد کردیتی ہے اور اپوزیشن جو تجاویز پیش کرتی ہے اسے حکومت مسترد کر دیتی ہے۔ نئے چیرمین کے تقرر کے لیے یہ خبریں بھی شائع ہوئیںکہ قائد حزب اختلاف سے صدر صاحب مذاکرات کر سکتے ہیں کچھ وزراء یہ بات کہہ رہے تھے جبکہ کچھ انکار کررہے تھے کہ نہیں صدر صاحب بھی اس حوالے سے اپوزیشن لیڈر سے کوئی مذکرات نہیں کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس بل کو حکومت اپنی اکثریت سے منظور کرالے گی اپوزیشن نے پہلے تو یہ کہا کہ وہ اسے عدالت میں چیلنج کریں گے لیکن اب خاموشی ہے۔ حکومت کے کچھ وزراء کا کہنا ہے کہ آرڈیننس میں جو تجاویز پیش کی گئیں ہیں وہ سب وہی ہیں جو اپوزیشن نے اپنی تجاویز میں پیش کی ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ آنے والے دو برسوں میں بہت سارے کیسز کا فیصلہ ہونے جارہا ہے اس لیے اگر موجودہ چیرمین ہی اپنے منصب پر رہے تو انتخاب سے پہلے نیب کے ان فیصلوں سے حکومت کو سیاسی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔