پاک امریکا تعلقات تاریخ کی کمتر سطح پر

706

امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین پاکستان کے دورے پر آئیں تو ان کی آمد ورفت بہت پھیکی اور بدمزہ رہی۔ نہ ائر پورٹ پر سرخ قالین بچھا اور نہ ہی پاکستان کا کوئی اعلیٰ اہلکار ان کے استقبال کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے جہاز کے باہر موجود تھا۔ صرف امریکی سفارت خانے کے افسر اپنی سرکاری اور ملکی ذمے داری نبھاتے ہوئے نورخان ائر بیس پر موجود تھے۔ وینڈ ی شرمین کے ساتھ سویلین نظام کی میٹنگ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وفد کے ساتھ ملاقات تھی اور شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے دفتر سے باہر نکل کر ان کے استقبال میں دلچسپی نہیں لی۔ کچھ عقابی دوستوں کا خیال تو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کے بجائے یہ ملاقات سیکرٹری خارجہ کے ساتھ ہونی چاہیے تھے۔ یہ ذرا زیادہ ہی مثالیت پسندی ہوتی۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ جب ڈومور اور شکوے شکایتیں ہی سننا ہیں تو کوئی بھی سن کر پوری ریاست کو آگاہ کرے۔ کیا عجب بے اعتنائی اور بے رخی سی ہے جس کی پاکستان سے امریکا کو نہ تو توقع رہی ہے اور نہ ہی امریکا کے معاملے میں یہ پاکستان کی روایت رہی ہے اور تو اور اب پاکستان کا سویلین حکمران امریکا سے آئے مہمانوں سے ملاقات تک نہیں کرتا۔ سی آئی اے کے چیف کی آمد کے بعد نائب وزیر خارجہ تک پاکستان نے امریکا سے نظریں پھیرنے کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ کہاں وہ دن کہ امریکی اہلکار پاکستان آتے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پوری سول اور فوجی قیادت کو ساتھ لے کر وفد کے روبرو ہوتے۔ یوں لگتا کہ کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ یہ تو ماضی قریب کا ایک منظر ہے کسی ایک دور کی بات نہیں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بگاڑ کے تین عشروں میں امریکا کا پاکستان کے لیے رویہ یونہی تحکمانہ اور تمکنت سے بھرپور رہا۔ جواب میں پاکستان فدویانہ اور درباری انداز اپنائے نظر آتا رہا۔ پاکستان کے حکمران اپنے پروٹوکول اور منصب کا لحاظ کیے بغیر امریکی ایلچی کو وائسرائے جان کر ملاقات کا موقع فراہم کرتے۔ اس سلسلے کو کہیں جا کر ختم تو ہونا تھا اور ایک نہ ایک روز لکیر کھنچنا لازم تھا۔ یہ لکیر بھی تقدیر نے کھینچی اور امریکا کے رویے نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا جس نے پاکستان پر یہ واضح کیا کہ اب امریکا سے جھڑکیوں، طعنوں اور نصیحتوں اور یک طرفہ دھمکیوں کے سوا کسی خیر کی توقع نہیں رہی۔ اس لیے لکیر کھینچنے کا مناسب وقت یہی تھا۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات تاریخ کی کمتر سطح پر ہیں یا دونوں کے تعلقات ابتری کی انتہا کی سمت جاری ہیں؟ ہر دو باتیں درست ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بحالی کی کوششوں کی کامیابی کو اب بہت کم بچا ہے۔ یہ راتوں رات نہیں ہوا اس کے پیچھے برسوں کی طویل کہانی ہے جو تلخ واقعات سے عبارت ہے۔ سرد جنگ کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں جو گہرائی اور گیرائی پیدا ہونی چاہیے تھی ترقی ٔ معکوس کا شکار ہو گئی۔ امریکا اور پاکستان سوویت یونین کی شکست کا جشن بھی مل کر نہ منا سکے۔ سوویت یونین ابھی ڈول ہی رہا تھا اور افغانستان میں اس کی شکست کے آثار نظر آنے لگے تھے کہ امریکا نے پاکستان سے نظریں پھیرنا شروع کر دی تھیں۔ افغانستان کے مستقبل پر ریگن انتظامیہ اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان ایک کشمکش اور کشیدگی پیدا ہوچلی تھی۔ یہ محض ایک مسئلے پر رائے کا اختلاف نہیں تھا بلکہ یہ سوچ کا زاویہ اور مستقبل کی راہوں میں اس تبدیلی کا آغاز بھی تھا جس کا عنوان تھا ’’کھیل ختم پیسہ ہضم‘‘۔ اب امریکا کو مابعد سوویت یونین وکمیونزم کا ایجنڈا تشکیل دینا تھا اس نئے کھیل میں پاکستان کی ضرورت نئے انداز سے تھی۔ اب پاکستان براہ راست ضرورت نہیں بلکہ ملا نصرالدین کے لطیفے کی طرح یخنی کی یخنی تھا۔ اب بھارت امریکا کی ضرورت تھا اور بھارت کی ضرورت کے طور پر پاکستان بھی ضروری تھا۔ بھارت کے مستقبل کے منصوبے اور عزائم اور چین کے مدمقابل کھڑے ہونے کی کوشش میں پاکستان کا ساتھ ضروری تھا۔ اس اختلاف کو دور کرنے کے لیے امریکا نے جنرل ضیاء الحق کی رائے کے برعکس محمد خان جونیجو جیسے کمزور اور غیر جماعتی وزیر اعظم کو اس قدر آکسیجن فراہم کی کہ وہ جنیوا معاہدہ کر بیٹھے اور اوجڑی کیمپ کی تلاشی کی راہ پر چل پڑے۔ یوں پاکستان میں منحنی اور نحیف ونزار جمہوری تجربہ پہلے مرحلے پر ہی لڑکھڑا کر گر پڑا اور جنرل ضیا نے اپنے ہی تراشیدہ مٹی کے گھروندے کو ناکام تجربہ قرار دے کر توڑ کر رکھ دیا۔
جونیجو سویلین بالادستی کی خواہش کا یہ انجام دیکھ کر خاموشی سے گھر چل دیے مگر امریکا کو اپنے دس سالہ اتحادی ضیا الحق کی یہ ادا ایک آنکھ نہیں بھاسکی اور ابھی یہ کھیل چل ہی رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کا جہاز حادثے کا شکار ہوا اور ماضی کی یادیں اور تعلقات کا ایک باب انجام کو پہنچ گیا۔ امریکا نے صرف ایک باب ہی نہیں پوری کتاب کو بند کردیا۔ اس کے بعد نئی ضرورت کے تحت امریکا نے چین کو نشانے پر رکھ لیا اور چین کے ساتھ پاکستان کے روایتی اور دیرینہ تعلق پر بھی اس کی زد پڑنے لگی۔ چین اور پاکستان کا تعلق بقائے باہمی پر مبنی تھا اور یہ صدقہ وخیرات نہیں بلکہ دونوں کے مفادات پر مبنی تھا۔ دونوں کا رہن سہن، تہذیب وثقافت، مذہب اور رنگ ونسل کچھ بھی نہیں ملتا تھا مگر اس کے باوجو د مشترکہ مفادات اور مقاصد نے انہیں جوڑا ہوا تھا امریکا کے مقاصد یہ تعلق توڑے بغیر پورے نہیں ہوتے تھے اس لیے پاکستان اور امریکا کے مفادات کی گاڑیاں دومتضاد راہوں کی طرف رینگنے لگیں۔ امریکا بھارت کی طرف لپکا تو پاکستان چین کی جانب لڑھکا اور کئی عشروں میں بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وینڈی شرمین اپنا بیگ اُٹھائے ہوئے آئیں اور رخصت ہوئیں کوئی ہاہا کار اور ہلچل مچی نہ شادیانہ بجا۔ ساری بیٹھک کی کہانی فارسی کے تین لفظوں پر مشتمل رہی نشتند گفتند وبرخاستند۔