ڈاکٹر عبد القدیر خان… الوادع

466

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کسی تعارف کے محتاج نہیں، زندگی وطن عزیز کے لیے وقف کیے رکھی۔ پاکستانی ایٹم بم کے خالق وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار تھے، تقسیم ہند کے موقع پر ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئے۔ بیرونی دنیا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وطن کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ڈاکٹر خان نے صرف آٹھ برس کے انتہائی قلیل عرصے میں ایٹمی پلانٹ نصب کر کے نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا، مغربی دنیا نے پروپیگنڈے کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بخوشی قبول کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو دو بار نشان امتیاز، تین صدارتی ایوارڈز ملے۔ چودہ اگست 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا، انہیں جنرل مشرف کے دور میں نظر بند کیا گیا اور پی ٹی وی پر انہیں ایک بیان پڑھنے پر مجبور کیا گیا، انہیں امریکا کے حوالے کرنے کے معاملے پر جنرل مشرف اور اس وقت کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی میں اختلافات بھی پیدا ہوئے، ظفر اللہ جمالی نے انہیں امریکا کے حوالے کرنے کی سخت مخالفت کی، تب سے اپنی وفات تک وہ اپنے گھر میں ہی نظر بند رہے بلکہ ان کی رہائی اور نقل و حرکت کے لیے ابھی تک عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست زیر سماعت ہے۔
پاکستان کو ایٹمی قوت اور دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی نمازِ جنازہ میں ان کے عزیز واقارب کے علاوہ قائم مقام صدر صادق سنجرانی کے علاوہ وفاقی وزراء سیاسی رہنمائوں میں راجا ظفر الحق، میاں اسلم، لیاقت بلوچ، کاشف چودھری، میاں رمضان، بلوچستان کے سابق ایڈوکیٹ جنرل ڈاکٹر صلاح الدین مینگل (تمغہ امتیاز) کے علاوہ شدید طوفانی بارش کے باوجود نماز جنازہ میں لاکھوں شہریوں نے بھی شرکت کی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی، فیصل مسجد سے جناح ایونیو تک چھ کلو میٹر کے فاصلے تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں، ہزاروں شہری نماز جنازہ میں شرکت کے لیے فیصل مسجد تک نہیں پہنچ سکے، اس موقع پر سکیورٹی کے لیے ایف سی اور رینجرز جوانوں کو تعینات کیا گیا۔ ایٹمی سائنسدان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ ایچ ایٹ قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔ ایک بیان کے ذریعے قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی خدمات کو سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خراج عقیدت پیش کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کچھ عرصہ پہلے کورونا میں مبتلا ہوئے تھے، انہیں صبح طبیعت بگڑنے پر اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پسماندگان میں بیوہ اور 2 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ حکومت کی جانب سے قومی ہیرو کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین اور اس موقع پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ اہلِ خانہ کی خواہش پر ایچ ایٹ کے قبرستان میں کی گئی۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے وہ عظیم سائنسدان جنہوں نے قلیل مدت میں ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ دنیا میں پاکستان کو نمایاں مقام دلانے والے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھوپال میں اپریل 1936ء میں پیدا ہوئے، اُنہوں نے 1952ء میں بھوپال سے میٹرک کیا اور اُس کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کراچی میں ڈی جے سائنس کالج کے بعد کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کرکے گریجویٹ ہوئے۔ عبد القدیر خان 1961ء میں اسکالر شپ حاصل کرکے جرمنی چلے گئے، 15 برس یورپ میں رہنے کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بلجیم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بلجیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئر کی اسناد حاصل کیں۔ بھٹو دور میںحکومت ِ پاکستان کی درخواست پر واپس پاکستان لوٹ آئے اور ’انجینئر ریسرچ لیبارٹریز‘ کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا، اس ادارے کا نام صدرِ پاکستان نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا جو یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی پیشہ ورانہ خدمات پر اُنہیں نشانِ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی اپنی ٹیم کی رہنمائی اور عظیم خدمات کا ثمر پاکستان کو ایٹمی طاقت کی صورت میں ملا اور پاکستان خطے میں توازن کی علامت بن گیا۔