افغانستان کی صورتحال اور عالمی ترجیحات

293

آج سے 20 سال قبل دنیا کی واحد سپرپاور امریکا نے اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر پہلے ہی جنگ سے تباہ حال پسماندہ ترین ملک افغانستان پر فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کیسے عالمی ٹی وی چینلز نے رات کی تاریکی میں افغانستان پر بمباری کی کوریج کرتے ہوئے امریکا اسٹرائیک بیک، وار آن ٹیرر، امریکا کا جوابی حملہ جیسی ہیڈلائنز لگائی تھیں۔ اس زمانے میں طالبان حکومت کوصرف تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا۔ اسلام آباد میں افغانستان کے نامزد طالبان سفیر ملا ضعیف کی پُرہجوم پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے عالمی صحافیوں کی دوڑیں لگ جایا کرتی تھیں۔ طالبان اور امریکی قیادت کے مابین بیانیے کی جنگ بھی جاری تھی، ایک طرف امریکا طالبان کو زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا تو دوسری طرف طالبان بے سروسامانی کے عالم میں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے پُرعزم نظر آتے تھے۔
گزشتہ 20 برس میں امریکا اور اتحادیوںنے طالبان کوافغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا، ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکا نے 3 ٹریلین ڈالرز افغان جنگ میں جھونک دیے۔ جرمن نشریاتی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میںدو دہائیوں پر محیط جرمنی کے مشن پر لگ بھگ ساڑھے 17 بلین یورو لاگت آئی۔ اسی طرح بھارت نے بھی افغانستان میں تین بلین ڈالر سے زائد کی بھاری سرمایہ کاری کررکھی تھی۔ سال 2015ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 90 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کردہ افغان پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اسے بھارت کی طرف سے تحفہ قرار دیا تھا۔
15 اگست کو طالبان کی افغان دارالحکومت کابل میں واپسی نے علاقائی منظرنامہ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے اور دو دہائیوں سے افغانستان میں اثرورسوخ رکھنے والے عالمی ممالک انخلاپر مجبور ہوچکے ہیں۔ بدلتی صورتحال میں نہ صرف نئے علاقائی کھلاڑی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم ہیں بلکہ 20 سال میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے بھی کچھ ممالک متحرک ہیں۔
فی الحال طالبان حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن سفارتی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ چین کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ عنقریب طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر بھی طالبان کو اپنی سفارتی نمائندگی کے لیے حمایت مل سکتی ہے۔ مزید براںافغانستان کی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت چین کے عالمی سپرپاور بننے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
ماضی کی سپرپاور روس کی طالبان حکومت کے لیے گرمجوشی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ روس نے طالبان کا کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھی اپنا سفارتخانہ کھلا رکھا اور روسی سفیر نے طالبان سے ملاقات کے بعد مثبت کلمات کا اظہار کیا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا یہ بیان بھی میڈیا کی زینت بناکہ طالبان کی افغانستان پر حکومت ایک حقیقت ہے اور روس کو اس کے ساتھ ہی چلنا ہے۔ اسی طرح برطانوی دفتر خارجہ نے باضابطہ تصدیق کردی ہے کہ برطانیہ کے افغانستان کے لیے خصوصی سفیر سائمن گاس نے گزشتہ دنوں طالبان رہنماؤں سے کابل میں ملاقات کی جس کے دوران طالبان کے بقول دوبارہ سفارتی تعلقات بحال کرنے سے متعلق بھی بات ہوئی ہے۔
ماضی میں طالبان کو تسلیم کرنے والے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس مرتبہ خاموشی سے علاقائی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اماراتی قیادت نے عربوں کے دیرینہ حریف اسرائیل سے پرجوش سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب اور ایران جیسے دو نظریاتی ممالک طویل عرصے سے جاری سرد جنگ کو ختم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں جب کہ ایران بھی اپنے دشمن امریکا کوشکست دینے والے طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ افغانستان میںطالبان کی واپسی یقینی بنانے والا ملک قطر ہے۔ اس نے دوحا میں طالبان کے سیاسی دفتر کی میزبانی کی۔ قطر کے افغان امن مذاکرات میں بڑھتے ہوئے کردار سے خائف ہوکر ہمسایہ خلیجی ممالک نے اسے خلیج تعاون کونسل(جی سی سی)سے بھی اچانک خارج کردیا، تاہم قطر کی کوششوں کی بدولت2020ء میں امریکا اور افغانستان کے مابین امن معاہدہ طے پایا۔
قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی وہ پہلی اعلیٰ غیر ملکی شخصیت ہیں جنہوں نے طالبان حکومت کے بعد افغانستان کا دورہ کیا۔ قطر نے اپنا سفارتی مشن کابل کے ایک ہوٹل میں قائم کردیا ہے ۔ قطر اور ترکی اسلامی دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے افغانستان میں موجودگی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ترک اور قطری ماہرین نے کابل ائرپورٹ کو ایک مرتبہ پھرکامیابی سے فعال کرکے نئی افغان حکومت کا اعتماد حاصل کیا ہے۔
تمام علاقائی کھلاڑیوں کی اپنے قومی مفادات کے لیے جستجو سے قطع نظر طالبان کا سب سے قریبی فطری اتحادی پاکستان کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت سے راہ و رسم بڑھانے والے تمام علاقائی ممالک بشمول ایران، چین، ترکی، روس اور قطر کے ساتھ ہمارے قریبی روابط قائم ہیں لیکن میری معلومات کے مطابق بھارت سمیت دیگر ممالک بھی قطر سے رابطے استوار کررہے ہیںتا کہ ان کی 20 سالہ سرمایہ کاری کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے۔اس سے پہلے کہ پاکستان مخالف عناصر افغانستان میں ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ بنالیں، ہمیں دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے علاقائی منظرنامے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے بہت سمجھداری سے کام لینا ہوگا۔