کیا شوبز سے وابستہ لوگ خراب ہوتے ہیں؟

437

ہمارے پیارے نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اس کے بارے میں جب بات کرو تو اس کی خوبیوں کا تذکرہ کرو۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اپنے خاندان کے کسی مرحوم کا اس کی خامیوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں، اللہ مغفرت فرمائے ہمارے تایاجان کی، ہم خراب جگہ پر ہیں وہ ہم سے اچھی جگہ پر ہیں وہ اگر اپنی زندگی میں ایسا نہ کرتے۔ ایک طرح سے ان کا ذکر منفی انداز میں کرنے لگتے ہیں، یعنی ان کی لیے دعائے مغفرت کرکے اچھی و بری جگہ کا تعین کرکے مرحوم پر تنقید کو اپنے لیے جائز تصور کر لیتے ہیں۔ حالانکہ جب ہمارے نبیؐ نے واضح طور پر منع کردیا تو بس وہ ممانعت اٹل ہو گئی۔ ہمارے معاشرے میں جس طرح معاشی اعتبار سے تین طبقات پائے جاتے ہیں ایک غریب طبقہ دوسرا متوسط طبقہ اور تیسرا سرمایہ دار طبقہ اسی طرح دینی حوالے سے بھی تین طرح کے خاندان پائے جاتے ہیں پہلا تو کٹر دینی گھرانہ جہاں اسلام کی جزیات تک پرعمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے دوسرا نارمل دینی گھرانہ جہاں دین پر عمل کرنے کے ساتھ کچھ دنیاوی معاملات سے بھی واسطہ پڑتا ہے اور تیسرا آزاد اورلبرل گھرانے جہاں دینی تقاضوں کا خیال ذرا کم ہی رکھا جاتا ہے لیکن دنیاوی آلائشوں میں غرق رہتے ہیں۔
ہمارے گھرانے کا تعلق دوسرے نمبر کا ہے کٹر دینی ماحول تو نہیں تھا لیکن کسی حد تک تھا بھی۔ والدہ ہماری عبادت گزار تھیں ہم بہن بھائیوں میں اکثر نماز کے پابند تھے بچپن میں مجھے یاد ہے ہمارے والد صاحب فلمیں دیکھتے تھے اور کبھی کبھی وہ گھر والوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے ہم نے اپنی زندگی میں جو پہلی فلم دیکھی تھی وہ گھر والوں کے ساتھ فلم اولاد دیکھی تھی جو وحید مراد کی پہلی فلم تھی۔ ہمارے جیسے گھرانوں میں فلم میں کام کرنے والے لوگوں کو اچھے خاندان کا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ فلموں میں کام کرنے والی خواتین کے میں کہا جاتا تھا کہ یہ طوائف کے کوٹھے سے منسلک رہی ہیں یا خود بھی کبھی طوائف رہی ہیں اور مردوں کے بارے میں بھی یہ تصور تھا کہ یہ اچھے لوگ نہیں ہوتے زیادہ تر شرابی زانی اور بدقماش ٹائپ کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہم نے جب پہلی دفعہ کہیں سنا یا پڑھا کہ وحید مراد نے کراچی یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹر کیا ہوا ہے تو تھوڑی سی حیرت ہوئی اسی طرح جب ٹی وی آیا تو اس میں کام کرنے والے لوگوں کے بارے میں فلم جیسا تصور تو نہیں تھا لیکن یہ تصور ضرور تھا کہ یہ لوگ آزاد گھرانے سے ہیں اور دین بیزار لوگ ہیں۔ یہ تمام باتیں 1970تک کی ہیں جب ہم ابھی جماعت اسلامی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد تھیٹر میں ڈراموں کا دور آیا جس میں بھانڈ میراثی گویے اور ڈھول بجانے والے فنکار کے نام سے سامنے آئے۔ فلم تھیٹر آئوٹ ڈور تفریح کا ذریعہ تھے تو ٹی وی ان ڈور۔
اس تفصیلی تمہید کے بعدحال ہی میں وفات پا جانے والے کامیڈی کنگ عمر شریف کے حوالے سے کچھ باتیں کرنا ہیں کہ جب ہم ان کے ڈرامے دیکھتے تھے ایک دفعہ میں نے اپنے بیٹے عبید سے کہا کہ یار یہ جب مرے گا تو کیا حال ہوگا لوگ روئیں گے بھی اور جب اس کے غم کو ہلکا کرنے کے لیے اس کے ڈرامے دیکھیں گے تو پھر ہنسیں گے۔ یہ اپنی موت پر رونے والوں کو چپ کرانے کا انتظام بھی کرکے جائے گا اس نے کامیڈی کی دنیا میں کچھ نئی جہتوں کو متعارف کرایا مثلاً آج تک کسی کامیڈین کا کوئی آڈیو کیسٹ نہیں آیا اس کے کئی آڈیو کیسٹ آئے جنہوں نے بڑی دھوم مچائی اسی آڈیو میں اس نے برقعے کے حوالے سے بہت اثر انگیز جملے ادا کیے کہ یہ برقعے جو کبھی ہماری اسلامی اور مشرقی تہذیب کا استعارہ تھے اب عنقا ہوتے جارہے ہیں اس کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس نے عوامی لہجے میںکامیڈی کی ہے سادہ سی باتیں سادہ سے انداز میں اس طرح ادا کرتا کہ لوگ ہنسنے پر مجبور ہو جاتے۔ کسی ڈرامے میںکسی نے اس سے کہا تمہیں شرم نہیں آتی اس نے فوراً جواب دیا کہ آتی ہے لیکن دوپہر کو نہیں آتی، اسی طرح ایک ڈرامے میں جمشید انصاری اس کے گھر اپنا رشتہ لے کر آتے ہیں اور اداکار نرالا کو اپنا باپ بنا کر لاتے ہیں، لکھنوی تہذیب کے تناظر میں نرالا صاحب ایک لفظ آداب عرض بار بار کہتے ہیں شروع میں تو وہ بھی جواباً آداب عرض کہتا ہے لیکن دوسری طرف سے کہنے کا سلسلہ رکتا ہی نہیں ہے تو اسے غصہ آجاتا ہے گائوتکیہ اٹھا کر مارنے لگتا ہے اور بہت زچ ہو کر جمشید انصاری سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ او بھائی تیرے پاس کوئی ہاتھ کٹا ابا نہیں ہے ان ہی کو لے آ ہم ٹنٹے ہی سے کام چلالیں گے۔ ایک انٹرویو میں کہا کہ آپ کراچی میں پیدا ہوئے اس نے کہا کہ چونکہ ماں باپ کراچی میں رہتے تھے اس لیے وہیں پیدا ہونا پڑا۔ ایک ڈرامے میں یہ ایس ایچ او بنے ہیں فون آتا ہے کہ تھانے میں بم ہے پوچھتا ہے بم کہاں ہے ایک پولیس کے سپاہی کا نام لے کر بتایا جاتا ہے کہ اس کی جیب میں ہے، اس پولیس کے سپاہی کو بلا کر کہتا ہے تم گھر جائو تمہاری چھٹی وہ کہتا ہے صاحب ابھی تو میں ڈیوٹی پر آیا ہوں وہ کہتا ہے نہیں نہیں تم گھر جائو تمہاری چھٹی گھر جا کر پھٹو۔ عمر شریف کی برجستہ حاضر جوابی سے بڑے بڑے لوگ اس کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے تھے، لوگ کہتے تھے کہ یا تو اس کی زبان کے اندر ہی اس کا دماغ ہے یا اس کے دماغ میں اس کی زبان ہے ابھی سامنے والے کا جملہ پورا نہیں ہوتا کہ فوراً جواب آجاتا ہے۔
عمر شریف کا ایک مذہبی رنگ بھی تھا معروف کامیڈین معین اختر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جب پہلی بار ڈراما پروڈیوسر فرقان حیدر ایک 14برس کے نوجوان کو میرے پاس لائے کہ با صلاحیت لڑکا ہے اسے کوئی موقع دیا جائے اس نوجوان کی پیشانی پر سجدے کے نشان تھے دنیا ٹی وی کے پروگرام حسب حال کے اہم رکن سہیل احمد ایک پروگرام میں بتارہے تھے کہ میں جب کراچی میں ان کے گھر گیا انہوں نے مجھے ایک کمرہ دکھایا اور کہا کہ یہاں میں نماز پڑھتا ہوں اور اپنے رب کو یاد کرتا ہوں دوسری اہم بات یہ کہ یہ بزرگان دین اور علمائوں و صوفیائوں کا بڑا ادب احترام کرتے تھے۔ ایک اہم خصوصیت عمر شریف کی دیوانگی کی حد تک وطن پرستی تھی اس کی رگ رگ میں پاکستانیت بھری ہوئی تھی ایک طویل عرصے تک وہ ہندوستان نہیں گیا جب کہ وہاں سے مختلف پروگراموں کے دعوت نامے آتے تھے۔ ایک پروگرام میں وہ کہہ رہاتھا کہ لوگ ڈاکٹر یہاں بنتے ہیں اور ڈاکٹری امریکا میں جاکر کرتے ہیں انجینئرنگ پاکستان میں پڑھتے اور جاب برطانیہ میں کرتے ہیں، ویلڈر یہاں بنتے ہیں اور ویلڈنگ جدہ میں کرتے ہیں۔ پاکستان کے جھنڈے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کا جھنڈا اپنی تنہائی پر بہت اداس ہے اور اہل وطن سے کہہ رہا ہے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے جھنڈوں کو چھوڑ کر ایک میرے سائے تلے آ جائو۔
80اور 90کی دہائی میں VCR نے ہمارے گھروں کو اپنی گرفت میں لے لیا کہ ہر گھر میں ہندوستانی فلمیں ذوق شوق سے دیکھی جانے لگیں، ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایک زمانے میں ہم نماز فجر کے لیے جاتے تھے توکچھ گھروں سے تلاوت قران کی آوازیں آتی تھیں اور جب vcr کا چلن عام ہوا تو صبح کے وقت گھروں سے تلاوت کے بجائے وی سی آر پر چلنے والی فلموں کی آوازیں آتی تھیں، یہ عمر شریف کا کارنامہ ہے کہ اس نے انڈین فلموں کے کریز کو کم کرنے کے لیے اپنے اسٹیج ڈراموں کے کیسٹ کے سلسلوں کا آغاز کیا، بکرا قسطوں پر ڈرامے نے ملک ہی میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں اودھم مچادی پھر اس کے تسلسل کے ساتھ پانچ پارٹ آئے پھر بڈھا گھر پر ہے اور اسی طرح کے ڈراموں نے ہندوستانی فلموں کے سحر کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی توڑ کر رکھ دیا۔ اور یہ بات خود عمر شریف نے ایک انٹر ویو میں بھی کہی تھی کہ ہم نے انڈین فلموںکے ذریعے فحاشی کی یلغار کو روکنے کی کوشش کی، بھارت کے ہر گھر میں عمر شریف کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھے جانے لگے اسی طرح ہندوستان کے تمام اداکاروں نے اور بالخصوصن مزاحیہ اداکاروں نے عمر شریف کو باقاعدہ اپنا استاد بنایا ہوا ہے پاکستانی اداکارہ ریشم نے کہا کہ انڈیا کے ایک پروگرام میں، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اداکار شاہ رخ خان عمر شریف کے قدموں میں بیٹھے تھے جس دن عمر شریف کا شو تھا امیتابھ بچن کو باہر جانا تھا انہوں نے اس دن کا اپنا ٹکٹ کینسل کروا دیا کہ وہ عمر شریف کا شو دیکھ کر جائیں گے۔ آخر میں ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے، آمین