گرمی، سردی، برسات اور ہارا ہوا ملک

697

برسات کا موسم بھی گزر گیا، موسم گرما کی شدت بھی کم ہوگئی لیکن بارش اور گرمی میں آنکھ مچولی بدستور جاری ہے۔ بارش ہوتی ہے، ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں تو گرمی ایک کونے میں دبک جاتی ہے، مطلع صاف ہوا اور سورج پوری آب و تاب کے ساتھ نکلا تو پسینے چھوٹنے لگتے ہیں اور گرمی آنکھیں مٹکاتی ہوئی پھر آموجود ہوتی ہے اور زبان حال سے کہتی ہے کہ میں ابھی نہیں جانے کی۔ غضب خدا کا ستمبر گزر گیا اکتوبر آگیا اور اب اکتوبر بھی اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن گرمی ہے کہ آلتی پالتی مارے بیٹھی ہے اور ٹلنے کا نام نہیں لے رہی۔ سچ پوچھیے تو ماحولیات کی تبدیلی نے موسموں کے مزاج پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے اور ان میں تُندی و تیزی آگئی ہے۔ برسات ہی کو لیجیے، یہ کسی زمانے میں بہت ہی خوبصورت اور روح پرور موسم ہوا کرتا تھا۔ مشہور تھا کہ جمعرات کی جھڑی اگلی جمعرات تک چلتی ہے۔ یعنی جو بارش جمعرات کو شروع ہوتی ہے وہ اگلے ہفتے اسی دن اختتام پزیر ہوتی ہے۔ اس بارش کو رِم جھم کہتے تھے۔ رم جھم پورے ماحول کو نہایت خوشگوار بنادیتی تھی۔ زندگی کے تمام معمولات بھی جاری رہتے تھے اور آسمان سے برسنے والے پانی کا تار بھی نہیں ٹوٹنے پاتا تھا اس موسم میں لوگ باغوں اور پارکوں کا رُخ کرتے اور پکنک مناتے تھے۔ گھروں میں اس موسم کی مناسبت سے خاص پکوان بنائے جاتے اور بچے، بوڑھے، جوان سبھی لطف اندوز ہوتے لیکن اب یہ ساری باتیں خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب موسم برسات میں جس قسم کی بارش ہوتی ہے اس کے لیے محکمہ موسمیات نے انگریزی میں تھنڈر شاورز (Thunder Showers) کی اصطلاح وضع کی ہے۔ آپ اردو میں اسے ’’گرج چمک کے ساتھ بارش‘‘ یا طوفانی بارش کہہ لیں۔ ہوتا یوں ہے کہ گھٹا اُمڈ کر آتی ہے، بادل گرجتے ہیں، بجلی چمکتی ہے اور موسلا دھار طوفانی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اس بارش کا دورانیہ ڈیڑھ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن اس مختصر سے وقفے میں سارا شہر جل تھل ہوجاتا ہے۔ سڑکیں نہر بن جاتی ہیں، برساتی نالے اُبل کر ملحقہ آبادیوں کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ بارش تو اپنا کام دکھا کر یہ جا وہ جا، شہری اس کے اثرات ہفتوں بلکہ مہینوں بھگتتے رہتے ہیں کیوں کہ برسات میں وقفے وقفے سے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، انسانوں کی طرح اب موسموں کے مزاج سے بھی تحمل، بردباری اور وضعداری رُخصت ہوگئی ہے۔ موسم برسات نے اس تبدیلی کا زیادہ اثر قبول کیا ہے اور ’’تبدیلی سرکار‘‘ کو عنوان احسان کردیا ہے۔ عمران سرکار کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دے گی حالاں کہ بہت سے لوگ این آر او لے کر اس سرکار کا عملی پرزہ بنے ہوئے ہیں۔ یہی حال برسات کا ہے وہ کسی کو این آر او دینے کی روادار نہیں لیکن جو لوگ این آر او لینے کا ہنر جانتے ہیں وہ اس سے بھی این آر او لے اُڑتے ہیں اور برسات کی گود میں بیٹھ کر طوفانی بارش کا لطف اُٹھاتے ہیں۔
ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ برسات اور موسم گرما کا زور ٹوٹ گیا ہے لیکن بارش اور گرمی میں آنکھ مچولی جاری ہے۔ دھوپ میں حدت کا یہ عالم ہے کہ آپ دو منٹ دھوپ میں کھڑے نہیں ہوسکتے۔ کمرے میں پنکھے کے بغیر گزارا نہیں ہے لیکن یہ سلسلہ تادیر نہیں چل سکتا۔ سردی اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ اندازہ ہے کہ وہ اکتوبر کے آخر تک پہاڑوں سے اُتر کر میدانوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگے گی۔ البتہ اس کے لیے ایک دو طوفانی بارشوں کی ضرورت ہے جس بارش کے بعد موسم پلٹا کھائے گا، اسے موسمِ سرما کی پہلی بارش کا اعزاز حاصل ہوگا۔ گرمی ہو سردی ہو یا برسات یہ سب اللہ کی نعمتیں اور قدرت کی نشانیاں ہیں جن میں آدمی کے لیے غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔ قرآن نے بار بار ان نشانیوں کی طرف آدمی کی توجہ دلائی ہے اور اسے ان نشانیوں کے خالق کی اطاعت پر اُبھارا ہے لیکن آدمی بھی بڑا جھگڑالو اور حجتی واقع ہوا ہے وہ کسی طرح بھی اللہ کی اطاعت قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور اس نے پوری دنیا میں فساد برپا کر رکھا ہے۔ فساد برپا کرنے والوں میں امریکا سرفہرست ہے جسے قدرت نے افغانستان میں وہ زور دار چانٹا رسید کیا ہے کہ اس کی سٹّی گم ہوگئی ہے لیکن اس کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اس سے بھی کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی عبرتناک شکست کی ذمے داری پاکستان پر ڈال رہا ہے اور اس شکست کا انتقام وہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے۔ چناں چہ امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس میں پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ بل منظور ہوتا ہے یا نہیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ امریکا پاکستان کے خلاف انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔
لیکن کبھی گرمی، کبھی سردی کبھی برسات۔ ان موسموں کی طرح قوموں کے موسم بھی بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی قوم یا ملک کبھی ایک حالت میں نہیں رہتا۔ ’’ہر عروج را زوال‘‘ افغانستان میں امریکا کی شکست کے اندر قدرت کا یہ اشارہ موجود تھا لیکن امریکا اس اشارے کو سمجھنے کے بجائے اس کی مزاحمت پر اڑا ہوا ہے اور پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ امریکا کے اس رویے میں خود پاکستانی حکمرانوں کے مدبر کی بھی آزمائش ہے۔ انہوں نے امریکی دھمکیوں اور پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے برادر ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ معاملات درست رکھے تو امریکا بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ بصورت دیگر انہیں دوطرفہ آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا اور امریکا انہیں دباتا چلا جائے گا۔
امریکا کا علاج ہی یہ ہے کہ اس کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہوجائو اور اس کی باتیں ماننے سے انکار کردو۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف امریکی مطالبات کے جواب میں یہ پالیسی اپناتے تو آج پاکستان کہیں بہتر پوزیشن میں ہوتا لیکن وہ تو ایک ہی ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوگئے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ امریکا پاکستان کو چٹائی کی طرح استعمال کرتا رہا اور پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
بات موسم سے چلی تھی اور امریکا تک پہنچ گئی۔ جس طرح موسم کی تبدیلی کو کوئی ماں کا لعل نہیں روک سکتا اسی طرح حالات کی تبدیلی کو روکنا بھی کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ قضا و قدر کے فیصلے ہیں۔ امریکا ہو، چین ہو، روس ہو یا کوئی اور ملک، سب ان فیصلوں کے آگے بے بس ہیں۔