‘وفاقی حکومت کے فیصلے اور سیاسی اثرات’

387

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب کے چیئرمین کے تقرر کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت اب چیئرمین نیب اُس وقت تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے جب تک نئے تقرر کے لیے وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے مابین بامعنی مشاورت نہ ہوجائے۔

بامعنی مشاورت کی شرط اصل میں عدالت عظمیٰ نے عائد کی ہے، جب جسٹس دیدار حسین کے تقرر پر عدالت عظمیٰ کے روبرو ایک درخواست دائر کی گئی تھی جو اُس وقت کے قائدِ حزبِ اختلاف چودھری نثار علی خان نے دائر کی تھی، اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں جسٹس دیدار حسین کو اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا تھا۔

صدرِ مملکت نے یہ آرڈیننس اُس وقت جاری کیا جب نیب کے چیئرمین کی مدت ِ تقرر مکمل ہورہی تھی اور وزیراعظم کو نئے تقرر کے لیے قائدِ حزبِ اختلاف کے ساتھ بامعنی مشاورت کرنا تھی۔ صدر کی جانب سے جاری کیے جانے والے آرڈیننس میں چیئرمین نیب کی تعیناتی، توسیع اور نیب قوانین میں بعض ترامیما شامل ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت نئے تقرر کے بجائے موجودہ چیئرمین ہی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے جن کی تعیناتی بھی اُس وقت کی حکومت اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کی گئی تھی۔

تحریک انصاف کی مرکزی حکومت اور ورزاء اس کی مثال بھی پیش کرتے رہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی ہم نے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے کی تھی، تب وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف میں مشاورت ہوئی تھی، ہاں البتہ یہ اہم بات ہے کہ جن ناموں پر غور ہورہا تھا اُن میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام شامل نہیں تھا، ان کا نام آخری لمحات میں سامنے آیا، اور بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ہامی بھری تو ان کا تقرر ہوا تھا۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی باہمی مشاورت سے جس شخصیت کو چیئرمین نیب تعینات کیا گیا تھا اب تک یہ دونوں جماعتیں اُس سے شاکی بلکہ کسی حد تک نالاں بھی ہیں اور گٹھ جوڑ کا بھی طعنہ دے رہی ہیں۔

اپوزیشن نے یہ معاملہ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، یوں ایک نیا تنازع بن گیا ہے۔ اس طرح کے اقدام کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جیسا کہ عندیہ بھی دیا گیا ہے، اس توسیع اور تعیناتی کو آئینی ضوابط کی خلاف ورزی کی بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر دے تو پھر فیصلہ عدالت کرے گی۔ لیکن آثار ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ اپوزیشن یہ معاملہ عدالت میں نہیں لے جائے گی۔ بہتر ہوتا اگر حکومت قائد ِ حزبِ اختلاف کے منصب کو اہمیت دیتی اور اس مسئلے پر مشاورت کرلیتی تاکہ آئینی ذمے داریاں پوری ہوجاتیں۔

کل کلاں انتخابات کے بعد اگر وفاق میں کسی دوسری جماعت کی حکومت بن جائے تو پھر پی ٹی آئی کا ردعمل کیا ہوگا؟ حکومت کا یہ مؤقف بھی عجیب ہے کہ اپوزیشن لیڈر پر چونکہ الزامات ہیں اس لیے اُن سے مشاورت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن شہباز شریف ملزم ہیں، مجرم نہیں۔ اب پنڈورا پیپرز آئے ہیں، ان میں پی ٹی آئی کے جن وزیروں، مشیروں اور قریبی افراد کے نام ہیں، جن پر الزامات ہیں، ان کو حکومت میں کیوں شامل رکھا گیا ہے؟

وقت نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان کی حکومت صرف دعووں کے ساتھ وقت گزار رہی ہے، اور اس کے فیصلوں سے عام آدمی کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچ رہا، جبکہ انتشار پھیلتا اور بڑھتا جارہا ہے۔ موجودہ عالمی اور ملکی حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت انتشار کو کم کرے اور غیر دانش مندانہ سیاسی فیصلوں سے گریز کرے۔