ؒافکار سید ابو الاعلیٰ مودودی

377

جماعت کا وجود
احکام کفر کے مقابلے میں احکام الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال منظم اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو اس کا التزام ضروری ہے اس مضمون پر کثیرالتعداد احادیث دلالت کرتی ہیں۔ البتہ جہاں تمام اہل ایمان کی ایک جماعت موجود نہ ہو اور اس مقصد عظیم کے لیے اجتماعی قوت پیدا کرنے کی مختلف کوششیں ہو رہی ہوں، تو التزام جماعت کے ان احکام کا اطلاق تو نہ ہوگا جو الجماعت کی موجودگی میں شارع نے دیے ہیں، لیکن کوئی ایسا شخص جو اقامت دین کے معاملے کی شرعی اہمیت سے واقف ہو اور اس معاملے میں ایک مومن کے فرض کا احساس رکھتا ہو، ان کوششوں کے ساتھ بے پروائی کا رویہ اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان کا جائزہ لے اور جس کوشش کے بھی صحیح و برحق ہونے پر مطمئن ہو جائے اس میں خود بھی حصہ لے۔ پھر حصہ لینے کی صورت میں (یعنی جب کہ آدمی ایک جماعت کو برحق جان کر اس سے وابستہ ہو چکا ہو) نظام و اطاعت کا التزام نہ کرنا سراسر ایک غیر اسلامی فعل ہے۔ یہ اطاعت محض نفل نہیں بلکہ فرض ہے کیونکہ اس کے بغیر فریضہ اقامت دین عملاً ادا نہیں ہو سکتا۔ احادیث میں اطاعت امر کے جو احکام آئے ہیں اور خود قرآن میں اطاعت اولوالامر کا جو فرمان خداوندی آیا ہے ان کے متعلق یہ سمجھنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ احکام صرف رسول اللہؐ اور خلفائے راشدین کے عہد کے لیے تھے۔ اگر یہ بات ہو تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اب نہ کوئی اسلامی حکومت چل سکتی ہے اور نہ کبھی جہاد فی سبیل اللہ ہو سکتا ہے کیونکہ نظام کی پابندی اور سمع و طاعت کے بغیر ان چیزوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ میں سخت حیران ہوں کہ کوئی شخص جس کو علم دین کی ہوا بھی لگی ہو، ایسی بے سروپا باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔
٭…٭…٭
اقامتِ دین
فریضہ اقامتِ دین کی حیثیت سمجھنے میں آپ کو الجھن اس لیے پیدا آئی ہے کہ آپ ارکان اسلام اور فرائض اہلِ ایمان میں فرق نہیں کر رہے ہیں۔ ارکان اسلام وہ ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے اور فرائض اہلِ ایمان وہ مقتضیات ایمان ہیں جنہیں اسلامی زندگی کی تعمیر کے بعد پورا کیا جانا چاہیے۔ ارکان اسلام قائم نہ ہوں تو سرے سے اسلامی زندگی کی عمارت کھڑی ہی نہ ہوگی۔ لیکن اس عمارت کے کھڑے ہو جانے کے بعد اگر مقتضیات ایمان پورے نہ کیے جائیں تو یہ ایسا ہوگا جیسے جنگل میں ایک بے مصرف اور ویران عمارت کھڑی ہے۔ فریضہ اقامتِ دین اسلام کا ستون نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی عمارت تعمیر کرنے کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے اور مزید برآں اسی پر اس عمارت کے استحکام اور اس کی آبادی اور اس کی توسیع کا انحصار ہے۔ اگر اس فرض کو مہمل چھوڑ دیا جائے تو اسلام کی عمارت بتدریج بوسیدہ ہو جائے گی، اور اس میں فسق و کفر کو قدم جمانے کا موقع مل جائے گا، اور اس کے وسیع ہو کر جمیع خلائق کے لیے پناہ گاہ بننے کا تو کوئی امکان ہی نہ ہوگا۔ اس لیے اس کام کو اسلام میں مسلمان کی زندگی کے مقصد کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔
(ترجمان القرآن، جولائی 1957ء)