ہر رکن اسمبلی وزیراعلیٰ بلوچستان بننا چاہتا ہے،جام کمال

248
کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کابینہ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں

کوئٹہ( نمائندہ جسارت) وزیرا علیٰ بلوچستان جام کمال اور مخالف اراکین کے درمیان برف پگھل نہ سکی۔ مخالف اراکین وزیراعلیٰ سے استعفے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ جام کمال نے بھی استعفا دینے سے انکار کردیا ہے۔ انہوں نے بدھ کو کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی اور معمول کی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی سمیت حکومتی اتحاد کے 11اراکین بلوچستان اسمبلی نے منگل کو پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ جام کمال کو استعفا دینے کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ 24گھنٹے کے اندر وزیراعلیٰ نے عہدہ نہ چھوڑا تو تحریک عدم اعتماد لانے سمیت تمام آپشنز استعمال کرنے کا عندیہ بھی دیامگرالٹی میٹم کا دورانیہ گزرنے کے باوجود وزیراعلیٰ جام کمال مستعفی نہ ہوئے۔ مختلف ٹی وی چینلز کو دیے گئے انٹرویوز میں جام کمال خان نے کہا کہ وہ استعفا نہیں دیں گے کیونکہ65رکنی ایوان میںحکومتی اتحاد 40اراکین اسمبلی پر مشتمل ہیں جس میں سے ناراض اراکین کے ساتھ صرف دس گیارہ لوگ ہیں جبکہ اکثریت ان کی بطور وزیراعلیٰ حمایت کررہے ہیں۔ جمہوریت میں اکثریتی رائے سے فیصلے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حکومت صرف بلوچستان عوامی پارٹی نہیں بلکہ دیگر جماعتوں بھی شامل ہیں یہ اتحادی حکومت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اتفاق رائے سے وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا لیکن پہلے دن سے بلوچستان عوامی پارٹی کے چار پانچ لوگ اس بات پر ناراض تھے کہ انہیں کیوں وزیراعلیٰ نہیں بنایا گیاوہی لوگ آج تک نالاں ہیںلیکن ان کے ساتھ چھ سات مزید لوگ اس گروپ میں شامل ہوگئے۔ ہر ایم پی اے کی خواہش ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ بنے۔ جام کمال کا کہنا تھا کہ انہوں نے ناراض گروپ میں جانے والے ان چھ سات ارکان سے ملاقاتیں کیں اور ناراضگی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ سے ناراض نہیں اور آپ کا رویہ بھی ہمارے ساتھ اچھا ہے لیکن ہم پھنس گئے ہیں ۔جام کمال کا کہنا تھا کہ وہ ناراض اراکین کو منانے کی کوشش کررہے ہیں۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ جام کمال نے بدھ کو بلوچستان کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی جس میں بی اے پی کے پانچ صوبائی وزیر وزرا ء ضیاء اللہ لانگو، عارف جان محمد حسنی،سلیم کھوسہ، مٹھا خان کاکڑ،حاجی محمد خان طور اتمانخیل، اے این پی کے صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی ، وزیراعلیٰ کے مشیر محمد نعیم بازئی، پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند، ہزارہ ڈیموکریٹک کے وزیر کھیل عبدالخالق ہزارہ اور جے ڈبلیو پی سے تعلق رکھنے والے مشیر بلدیات نوابزادہ گہرام بگٹی نے شرکت کی۔ تاہم بی اے پی کے ناراض گروپ سے تعلق رکھنے والے وزراء اور مشیر ظہور بلیدی، سردار عبدالرحمان کھیتران، محمد خان لہڑی،اکبرآسکانی، بی این پی عوامی کے صوبائی وزیر اسد بلوچ نے شرکت نہیں کی۔ بی اے پی کے ایک اور صوبائی وزیر نور محمد دمڑ بھی کابینہ اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد عبدالخالق ہزارہ، گہرام بگٹی، مٹھا خان کاکڑاور سینیٹر دھنیش کمار پر مشتمل حکومتی وفد ناراض اراکین سے ملاقات کے لیے بلوچستان اسمبلی پہنچا جہاں انہوں نے چیمبر میں بی این پی عوامی اور پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسد بلوچ اور نصیب اللہ مری سے ملاقات کی تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین ان سے ملاقات کیے بغیر ہی چلے گئے۔ حکومتی وفد کے ارکان عبدالخالق ہزارہ اور گہرام بگٹی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اندرونی مسائل کو گھر کے اندر حل کریں اور سب مل بیٹھ کر گلے شکوے ختم کریں ۔دوسری جانب ناراض گروپ کے اسد بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گروپ کے ارکان کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جام کمال نے دی گئی مہلت کے دوران استعفا نہیں دیا ہم انہیں مزید چوبیس گھنٹے کی مہلت دینگے ۔ ناراض گروپ کے وزراء، مشیر اور پارلیمانی سیکریٹریز استعفا دینے کے لیے تیار ہیں مگر ہم حکمت عملی کے ساتھ بڑھیں گے۔ ہمارے کچھ اراکین کراچی اور اسلام آباد میں ہیں ان سے صلاح و مشورہ کرنا ضروری ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جام کے ساتھ بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جام نے استعفا نہ دیا تو ہم اپنا آئینی و قانونی ہاتھ استعمال کریں گے اور دو دنوں کے اند ر عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں گے اگر وہ سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں تو ہمارے پاس بھی نمبرز پورے ہیں ہمیں38سے40ارکان کی حمایت مل جائے گی۔ ایک ہفتے میں نئی حکومت آجائے گی اور پھرملکر نیا وزیراعلیٰ لے آئیں گے۔