ریلیف کے نعرے، سبسڈی اور ٹیکنیکل کرپشن

615

وزیراعظم صاحب مہربانی کریں یہ سبسڈی کا ڈراما جو اس پاک وطن کے بدقسمت اور سیدھے سادے عوام کے ساتھ ایک طویل عرصے سے کھیلا جارہا ہے یہ عام آدمی کو ریلیف دینے کے بجائے حکومت کی طرف سے سرمایہ دار کو نوازنے اور کرپشن کا ایک ٹیکنیکل طریقہ کار ثابت ہوا ہے۔ جس کو سبسڈی سے نوازنا ہوتا ہے پہلے وہ چیز ذخیرہ کروا کے اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے مہنگی کروائی جاتی ہے، عوام کی چیخیں نکلوائی جاتی ہیں پھر عوام کو ریلیف دینے کے نام پر سبسڈی کے ذریعے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ سرمایہ دار کی جیب میں ڈال دیا جاتا ہے اور متعلقہ اشیاء کی قیمت چند مہینوں میں 25 سے پچاس فی صد تک اوپن مارکیٹ میں ناقابل واپسی پکی کر دی جاتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال چینی کی ہے جو سبسڈی دینے کے باوجود اس ڈرامے کے ذریعے آج 55 روپے سے 110 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔ اس کو خود ساختہ مہنگائی کا نام دیتے ہوئے ڈنڈا پھر عوام کے سروں پر ہی برستا ہے یعنی پکڑ دھکڑ اور جرمانے چھوٹے کاروباری لوگوں اور گلی محلے کے دوکانداروں ہی کو کیے جاتے ہیں جن کو مہنگی اشیاء خرید کر سستی بیچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے حکومتی مشینری کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے اور حکومتی مشینری کو بھی پرائس کنٹرول سمیت ہر شعبے میں اپنی نوکری اور عزت بچانے کے لیے جرمانے اکٹھے کرنے اور چالانوں کی تعداد کی صورت میں ٹارگٹ دیا جاتا ہے ناجائز منافع خور اور ثابت شدہ سبسڈی خور مل مالک اور ڈیلر کو نہ حکومت پوچھتی ہے نہ قانون اور نہ ہی عدالتیں اور پستے ہیں تو بالآخر غریب عوام جن کو ریلیف دینے کے حکومتی نعروں کی بھی دھول اڑ چکی ہے، حکومتی رٹ ہے کہ وہ ہر شعبے میں سرمایہ کار کو تحفظ اور عام آدمی پر ڈنڈے چلاتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس میں آپ کے آس پاس اختیارات کا لباس اور سر پر شرفاء کی ٹوپی پہنے عوام کے دکھوں سے متاثر ہو کر مگر مچھ کے آنسو بہانے اور روزانہ کی بنیاد پر عوامی پلیٹ فارم، سوشل میڈیا اور مختلف چینلوں پر زبان چلانے اور موجودہ کوتاہیوں کا سابقہ حکومتوں کو بھونڈی دلیلوں کے ذریعے مکمل طور پر مورد الزام ٹھیرانے والے مافیاز بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ درست مان لیتے ہیں کہ ہمارے ملک کا وزیراعظم اس ملک اور عوام کو آگے بڑھانے، بغیر رشوت اور سفارش کے انصاف عام آدمی کی دہلیز تک پہنچانے، کرپشن جیسی موذی بیماری کو جڑ سے ختم کرنے اور اس مملکت خداد کو دنیا کا ایک عظیم ملک بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں گزشتہ 3 سال میں بے شمار منصوبوں اور پروگراموں کا اعلان کیا جا چکا ہے، جن کی کاغذی اور کمپیوٹرائزڈ کارروائی مکمل ہو چکی ہے جو زیادہ تر کاغذی ہی ثابت ہوئی ہے عملی طور عوام تک اس کے حقیقی ثمرات ابھی تک نہیں پہنچ سکے بلکہ بعض منصوبوں اور پروگراموں کے ثمرات وہی لوگ اٹھا رہے ہیں جو ایک طویل عرصے سے حکومت کوئی بھی ہو ان کے مفادات کو کوئی زد یا زک نہیں پہنچتی عوام کو ریلیف دینے کے لیے احساس سے بھرپور ہر پروگرام میں کرپشن کی آوازیں اٹھ چکی ہیں اور اٹھ رہی ہیں عوام کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کان سن رہے ہیں لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ ان آوازوں کو سن اور دیکھ کر نوٹس لینے والے ذمے داران نے اپنے حواس خمسہ پر انگلیاں اور پورے پورے ہاتھ رکھے ہوئے ہیں جس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں، تازہ ترین مثال یہ ہے حکومت نے کسانوں اور زراعت کو کسان کارڈ کے ذریعے ریلیف دینے اور کسان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور کرپشن کو ختم کرنے کے لیے نیک نیتی سے کسان کارڈ کے اجراء کا اعلان کر کے اس کا افتتاح بھی کر دیا ہے۔ کسانوں کو اس کارڈ کے ذریعے ریلیف اور سبسڈی حاصل کرنے کے
طریقہ کار کے متعلق بریف بھی گیا اور کیا جا رہا ہے مثال کے لیے کھاد خصوصی طور ڈی اے پی کھاد جس کی قیمت جولائی 2018 میں 3 ہزار 433 روپے تھی مارکیٹ میں 5000 روپے فی بوری تک پہنچ چکی تھی کسان کو 1 ہزار روپے سبسڈی کا اعلان کر دیا گیا اور یہ سبسڈی کسان کارڈ کے ذریعے حاصل کرنے کی تلقین جاری کر دی گئی نتیجہ یہ نکلا کہ کسان کارڈ کے ذریعے کھاد پر سبسڈی کے اعلان سے پہلے ڈی اے پی کھاد کی بوری 5000 روپے کی تھی اعلان کے بعد فی بوری 1500 کے اضافے کے ساتھ 6500 کی ہو گئی، بد قسمتی سے حکومت نے عوام اور عام آدمی کو کسی بھی چیز پر سبسڈی یا کسی دوسرے ذریعے سے ریلیف دینے کی کوشش کی اس کا فائدہ خواص نے اس چیز کی قیمت بڑھا کر حاصل کیا جس کا سب سے بڑا ثبوت 55 روپے بکنے والی چینی 110 روپے کلو تک پہنچ جانے کی صورت میں موجود ہے عام تھیوری کے مطابق یہ سبسڈی وغیرہ اب تک کرپشن کے ٹیکنیکل طریقہ کار کی صورت ہی ثابت ہوئی ہے کیونکہ یہ دراصل عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہی ہوتا ہے جو عوام کی جیبوں سے نکال کر خواص کی جیبوں میں ڈال دیا جاتا ہے پھر اس میں سے تھوڑا سا پیسہ خیرات کی صورت میں عوام کو واپس کر کے عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے عوام سے یہ کھیل ایک طویل عرصے سے کھیلا جا رہا ہے۔ یہ سبسڈی وغیرہ عوام کے جوتے عوام کے سر پر مارنے کے مترادف ثابت ہوئی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ مزید وعدے اور اعلانات کرنے کے بجائے کیے گئے وعدوں اور اعلانات کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے سود مند،قابل عمل اور بلا تفریق سخت اقدامات اٹھائے جائیں اور انصاف پر مبنی ایسی حکومتی رٹ قائم کی جائے جو عام آدمی کو بھی نظر آئے۔