وزارت امربالمعروف و نہی عن المنکر

530

خلافت ملوکیت ایک معروف معرکہ آرا کتاب ہے جس کے مصنف مولانا مودودیؒ ہیں آپ نے عوام کے حکومت پر بنیادی حقوق کے عنوان میں ان آیات کو درج کیا ہے جس میں امر بالمعرور و نہی عن المنکر کا حکم بڑی تاکید کے ساتھ درج ہے اور قرآن کی ان آیات کا حوالہ بھی موجود ہے جس میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا کیوں ضروری ہے ایک گروہ کی کیوں ہر وقت ضرورت ہے جو اس کام کو ہمہ وقت کرتا رہے۔
جس طرح ایک خوبصورت باغ کے تحفّظ کے لیے اس کے چارو طرف دیوار تعمیر کی جاتی ہے اس کو سرسبز و شاداب رکھنے کے لیے پانی کی وافر مقدار کا بندوبست کیا جاتا ہے اس باغ کی مسلسل نگرانی کے لیے کوئی ماہر مالی رکھا جاتا ہے جو اس باغ کی دیکھ بھال کرتا ہے اس میں موجود درختوں، پھولوں کی کیاریو ں کی دیکھ بھال کرتا ہے مالی اس باغ کو بیرونی خطرات سے بچاتا ہے اور اس کو اندرونی ان کیڑوں اور جراثیم سے بھی بچاتا ہے جو درختوں اور پھولوں کی کیاریوں کو تباہ کرنے کا باعث بنتے ہیں جیسے ہی مالی کو پودوں میں کیڑے نظر آتے ہیں وہ فوراً ان کے خاتمے کے لیے کیڑے مار اسپرے کرنا شروع کرتا ہے یہ کام کوئی ایک دو روز کا نہیں ہے بلکہ یہ کام باغ کے ساتھ ہر روز اور ہر وقت کرنے کا ہے۔ یہ کام باغ کا مالی جتنی وفاداری اور دیانتداری سے کرتا رہے گا باغ کی پیداوار اور پھولوں سے لدی ہوئی کیاریاں اس کی محنت کی گواہی دیتی رہیں گی۔ بالکل اسی باغ کی طرح خالق کائنات بھی انسانوں کو ایسی ہی حکومت کے قیام کا حکم دیتا ہے اور اس کو قائم کرنے کا فریضہ اپنے بندوں کے اوپر لازم قرار دیتا ہے۔ جہاں سارے انسان مل کر ایک خدائے واحد کی بندگی کریں یا یوں کہہ لیا جائے کہ اس معاشرے میں ہونے والی تمام سرگرمیاں خدا مرکز ہوں جہاں نیکی کرنا آسان ہو اور برائی کرنا انسان کے لیے مشکل ہو، ایسا معاشرہ اپنے دامن میں انسانوں کے لیے بے شمار فوائد لیے ہوتا ہے جن میں نمایاں امن، عدل وانصاف، خوشحالی، باہمی اخوت، انسانی حقوق تو کیا نباتات و جمادات کے حقوق کی ضمانت اور بے شمار فوائد اسلام کے تیار کردہ اس خوبصورت معاشرے میں ہوتے ہیں۔
اس عمارت کی اینٹیں وہ افراد ہوتے ہیں جو ایک الٰہ کو اپنا معبود تسلیم کرتے ہیں وہ اس نظام زندگی پر راضی ہوتے ہیں جو خالق کائنات نے اپنی کتاب میں قرآن اپنے رسول برحقؐ کو دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اسی نظام زندگی کا قیام اول تو تما م انبیاء پر فرض قرار دیا گیا اور جس کو نبی کریمؐ نے اپنی حیات طیبہ میں مدینے میں قائم کرکے دکھایا اس کے بعد اب اس کا قیام تمام اہل اسلام پر فرض ہے اسی کو حکومت الٰہیہ بھی کہتے ہیں۔ اس میں رہنے والے تمام افراد کے حقوق کی ضامن یہی حکومت ہوتی ہے۔ یہ معروف کا حکم دینا اور منکرات سے روکنا، یہ دراصل اسی حکومت کی ذمے داریوں میں سے ایک اہم ذمے داری ہے۔ معروف دنیا میں ان تمام کاموں کو کہتے ہیں جن کو ہمیشہ سے باضمیر انسانوں نے اچھا تسلیم کیا ہے جیسے سچ بولنا، دیانت داری، حق کی شہادت، صلہ رحمی، امداد باہمی، مظلوموں کی مدد وغیرہ۔ دنیا میں ہمیشہ باضمیر انسانوں نے جھوٹ بولنے کو، بد دیانتی کو، جھوٹی گواہی کو، قطعہ رحمی کو اور ظلم کو برا جانا ہے اور اس سے نفرت کا اظہار کیا ہے انہی کاموں کو منکرات کہا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے اسی لیے اسلام نے ان تمام معروفات کا حکم دینا لازمی قرار دیا اور منکرات سے روکنا بھی لازمی قرار دیا ہے۔ تبھی تو مسلم معاشرے میں نیکیاں کرنا آسان اور برائیوں کے دروازے بند ہوں گے۔ اس لیے یہ اسلامی حکومت پر مسلم عوام کا حق اور حکمران کا فرض قرار پاتا ہے۔ آج کا طاغوت دنیا میں ایسے تمام معاشروں کے قیام کی دشمن ہے جہاں نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہو یہ طاغوت ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے کہ ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں نیکی کرنا مشکل ہو اور گناہ کرنا آسان ہو۔
یہ تمہید اس لیے باندھنے کی ضرورت پیش آئی کہ آج کا طاغوت امریکا اور اس کے حواری اور مسلم ممالک میں موجود ان کے دلّال اپنا سارا زور صرف کررہے ہیں کہ افغانستان میں ایسی کوئی حکومت بن جائے جو وسیع البنیاد ہو جس میں دنیا کے اندر فساد پھیلانے والے بھی موجود ہوں اور کچھ اسلام کے شیدائی بھی موجود ہوں بار بار عورتوں کے حقوق کی ضمانت افغانستان سے مانگی جارہی ہے۔ حقوق کے ان ٹھیکیداروں کو اس وقت عورتوں کے حقوق نظر نہیں آئے جب افغانستان میں کارپٹ بمباری کررہے تھے جب عراق میں آبادیوں کو نشانہ بنارہے تھے اس وقت تو انہوں نے اسکولوں اور اسپتالوں تک کو نہیں چھوڑا اس وقت ان ٹھیکیداروں کے پیٹ میں درد نہیں ہوا جب بغیر جرم ثابت کیے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جھوٹے الزام میں جیل میں قید کیا اور اس کو پچاسی سال کی سزا سنا دی۔ اپنے وعدوں اور معاہدوں کو دیوار پر دے مارا اور طالبان کو وعدوں کو وفا کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ اسلامی نظام کبھی بھی کسی ملغوبے کے ساتھ قائم نہیں ہوسکتا۔ جہاد کے نتیجے ہی میں کھرا اور کھوٹا الگ الگ ہوتا ہے اور آج کی دنیا میں افغانستان میں ایسا ہوچکا ہے۔ وزات امر باالمعروف و نہی عن المنکر پہلے بھی قائم تھی اب دوبارہ اس وزارت کے قیام سے لبرل صفوں میں ایک کہرام مچا ہے کیوں کہ یہی وہ طبقہ ہے جو ایسے تمام معاشروں کا دشمن ہے جس طرح فصلوں کو سنڈی تباہ کرتی ہے اور کسان کیڑے مار اسپرے سے اپنی فصل کی حفاطت کرتا ہے جس معاشرے میں بھی نیکی پروان چڑھنے لگتی ہے وہاں یہ امریکن سنڈی لگ جاتی ہے اور نیکی کی اس فصل یا باغ کو پھلنے اور پھولنے نہیں دیتی اسی ضرورت کے تحت یہ کام جو باقاعدہ ایک وازت کے تحت کردیا گیا ہے ضروری ہے تاکہ بروقت کیڑے مار ادویات کا اسپرے ہوتا رہے اور برائیوں کو پنپتے کا موقع اس مملکت میں نہ مل سکے۔ امریکا اور یورپی یونین افغانستان کو دنیا میں تنہا کرنے کے درپے ہیں اور اس کے بیرون ملک اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا تو ہر اس تحریک کے ساتھ ہوتا ہے جو خالص دین کے قیام کی جدوجہد لے کر اٹھے گی۔ بات ہے ثابت قدمی کی اللہ تعالیٰ افغانستان کی حکومت کو ثابت قدمی عطا فرمائے۔ آمین