کشمیر پر عملی کام کی ضرورت ہے

874

اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جموں و کشمیر کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع قرار دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا تقاضا کیا گیا ہے اور باور کرایا گیا ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ یو این قراردادوں کے مطابق ہی حل ہونا ہے جس کے بغیر مغربی ایشیاء میں پائیدار امن کا حصول ناممکن ہے۔
نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وہاں موجود او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس کا بھی انعقاد کیا جس کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں جموں و کشمیر تنازعے پر او آئی سی کے موقف کا اعادہ کیا گیا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کا عزم دہرایا گیا اجلاس میں بھارت کے پانچ اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدام کو مسترد کیا گیا۔ اسی طرح غیر کشمیریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کرنے کا بھارتی فیصلہ بھی مسترد کیا گیا۔ وزیر خارجہ پاکستان مخدوم شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے اپنے ہم منصب امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو ڈوژئیر بھی پیش کیا او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں وزرائے خارجہ نے اس مشترکہ موقف کا اظہار کیا کہ ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ کی حامل بی جے پی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت مٹانے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس بھی جاری ہے جس کی کارروائی زیادہ تر ویڈیو لنک کے ذریعے ہو رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ہی اس اجلاس میں خطاب کیا ہے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی اس اجلاس کے حوالے سے نیویارک میں موجودگی اس لیے بھی خوش آئند رہی کہ اس موقع پر او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے جموں و کشمیر سے متعلق او آئی سی رابطہ گروپ کا اجلاس بھی منعقد کر لیا اس طرح دیرینہ کشمیر ایشو پر او آئی سی کا مشترکہ موقف بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سامنے آ گیا۔ چونکہ کشمیر کا تنازع مستقل طور پر جنرل اسمبلی کے ایجنڈے پر ہے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی جنرل اسمبلی توثیق کر چکی ہے اس لیے جنرل اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں او آئی سی رابطہ گروپ کے مشترکہ اعلامیہ کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے ٹھوس بنیادوں پر لائحہ ٔ عمل طے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ علاقائی اور عالمی امن مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے ساتھ ہی منسلک ہے جبکہ اس کا قابلِ قبول اور پائیدار حل سلامتی کونسل کی قراردادیں روبہ عمل لانے ہی سے ممکن ہے۔ عالمی برادری کو بالآخر اس حل کی طرف ہی آنا ہے جس کے لیے بھارت سے مقبوضہ وادی میں استصواب کا اہتمام کرانا ہو گا جبکہ بھارت کو سخت عالمی دبائو کے تحت ہی کشمیر میں استصواب کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ بھارت نے استصواب کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کی آج تک نوبت ہی نہیں آنے دی اور اس کے بجائے اس نے 1948ء میں کشمیر پر قائم کیا گیا اپنا فوجی تسلط اب تک برقرار رکھا ہوا ہے جس کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر وہ کسی صورت آمادہ نہیں۔ بھارت نے جدوجہد ِ آزادی سے وابستہ کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا چنانچہ بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے کشمیریوں کی تحریک بے بہا جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ آزادی کی یادگار تحریک بن چکی ہے جو اقوام عالم میں اور نمائندہ عالمی اور علاقائی فورموں پر تسلیم شدہ تحریک ہے۔
بھارت کی مودی سرکار نے تو کشمیریوں پر ظلم و جبر کی انتہاء کر دی ہے جس نے کشمیریوں کے لیے اقوام عالم میں آواز اٹھانے کی پاداش میں پاکستان کی سلامتی پر اوچھے وار کرنے کی بھی مکمل منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ اسی تناظر میں مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھائی اور کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی جانب یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ دراز کیا۔ چنانچہ اس نے کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کی ٹھانی اور دو سال قبل پانچ اگست کو بھارتی پارلیمنٹ کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق دونوں آئینی شقیں بھارتی آئین سے حذف کرا دیں اور پھر بھارتی شہریت ایکٹ میں بھی ترمیم کرا کے غیر کشمیریوں کے لیے کشمیر کی شہریت حاصل کرنے کا راستہ نکلوا لیا۔ بھارتی جبری اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا، نمائندہ عالمی اداروں بشمول سلامتی کونسل، یورپی پارلیمنٹ اور برطانوی پارلیمنٹ نے اس بھارتی اقدام کے خلاف قراردادیں منظور کیں اور بھارت سے کشمیر کی پانچ اگست 2019ء سے پہلے والی حیثیت بحال کرنے کا تقاضا کیا مگر بھارت عالمی برادری کی کسی بھی آواز پر ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اس کے برعکس وہ اپنے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کو جبراً بھارت میں ضم کر چکا ہے جسے کشمیری عوام نے قبول نہیں کیا۔ بھارت اپنے جبر میں جتنی شدت پیدا کرتا ہے، اس سے زیادہ شدت کے ساتھ کشمیریوں کی جانب سے مزاحمت کی جاتی ہے۔ بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کی شہادت بھی جبر کے اسی ماحول میں ہوئی جن کی نعش ان کے لواحقین سے چھین کر رات کے اندھیرے میں دفنائی گئی جو بذات خود انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی چنانچہ کشمیریوں نے اس بھارتی جبر کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اب تک جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کے اس احتجاج کی صدائے بازگشت گزشتہ روز برطانوی پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی جہاں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بحث ہوئی اور مودی سرکار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقع پر برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اس امر پر زور دیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو جنرل اسمبلی میں خطاب کے موقع پر کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر چیلنج کیا جائے اور کشمیریوں کے حق ِ رائے دہی کے لیے آواز اٹھائی جائے۔