پاکستان میڈیکل کمیشن کی طفل بازیاں

390

پاکستان میں جب بچے کو اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے تو کئی والدین اسی وقت دل میں تہیہ کر لیتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو ڈاکٹر بنائیں گے تاکہ وہ خدمت خلق بھی کریں اور ان کا مستقبل بھی روشن ہو۔ والدین اپنے اس مقصد کے لیے اچھے سے اچھے اور مہنگے سے مہنگے اسکولوں کا چناؤ کرتے ہیں تا کہ ان کی تعلیمی بنیاد مضبوط ہو۔ دوسری طرف ان کے بچے بھی ڈاکٹر بننا ہی اپنا مشن بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ وہ دوسری سرگرمیوں اور تفریحات کو پس پشت ڈال کر زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں جت جاتے ہیں اور ایک ایک نمبر کے لیے مر مر جاتے ہیں۔ طالب علموں سے زیادہ ان کے والدین کی جان اٹکی ہوتی ہے۔ وہی والدین اور بچے اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں جن طلبہ و طالبات کے میٹرک میں 1050 سے اوپر نمبر آئیں۔ پھر یہی دوڑ ایف ایس سی میں ہوتی ہے۔ کالج کے علاوہ بھاری ٹیوشن فیس والی اکیڈمیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں بھی بہترین یعنی زیادہ تر 90 فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد والا مرحلہ جسے میڈیکل کی لائن میں سب سے مشکل ترین مرحلہ سمجھا جاتا ہے وہ آتا ہے یعنی MDCAT کا ٹیسٹ۔ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جو پلک جھپکنے میں 15 سال سے دن رات محنت میں ڈوبے طالب علم کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ والدین اور بچے صدمے کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ دو لاکھ لائق ترین طلبہ وطالبات میں سے صرف چند سو کو سرکاری میڈیکل کالجوں کے لیے منتخب ہونا ہوتا ہے۔ باقی رہ جانے والے امیدواروں میں سے جن کے 65 فی صد یا اس سے زیادہ نمبر ہوں تو وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں جا سکتے ہیں۔ جن کی فیسیں فی سیمسٹر لاکھوں میں ہے۔ کیا ایک تنخواہ دار شخص یا کوئی متوسط گھرانہ ایک بچے کی اتنی زیادہ فیس دینے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر بننے کے لیے پہلا اصول ہی دل میں خدمت ِ خلق کا جذبہ ہونا ہے لیکن جس طالب علم نے اپنے والدین کو تنگیاں سہہ کر اتنی فیس دیتے دیکھا ہو تو سوچیے خدمت خلق کا یہ جذبہ اس کے دل میں کتنا پروان چڑھے گا؟
کچھ بچے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں چلے جاتے ہیں لیکن بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے صرف یہی آپشن ہوتا ہے کہ اب وہ بی اے کر لیں یا بی ایس سی۔ وہ افسردہ ہوتے ہیں اور دلوں کے ٹوٹے ہوئے بھی کیونکہ ان کا ڈاکٹر بننے کا برسوں سے دیکھا ہوا خواب ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ پہلے MDCAT کا ٹیسٹ UHS کا ادارہ لیتا تھا پھر پی ایم سی والوں نے خود لینا شروع کر دیا لیکن اس بار عجیب کام یہ کر دیا کہ انٹری ٹیسٹ کا کام TEPS کے حوالے کر دیا اور اس ادارے نے طالب علموں کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھایا۔ کسی کو مشکل اور کسی کو آسان ٹیسٹ ملا سب سے بڑھ کر ٹیسٹ، ٹیبز پر لیا گیا۔ ذرا سوچیں پاکستان میں خاص کر دیہی آبادی میں کتنے گھرانے ایسے ہیں جہاں بچوں کے ہاتھوں میں ٹیب جیسے گیجٹس پکڑا دیے جاتے ہیں یا وہ انہیں پڑھائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جن کی قیمت ہی 30 ہزار سے شروع ہوتی ہے۔ انٹری ٹیسٹ دینے والے بچوں میں کئی بچے ایسے بھی ہوں گے جن بے چاروں نے اس گیجٹ کو شاید پہلی مرتبہ پکڑا ہو گا۔ وہ گھبراہٹ میں مبتلا ہو کر کیا امتحان دیں گے۔ میٹرک میں اٹھانوے فی صد نمبر حاصل کرنے والے بچے بھی انٹری ٹیسٹ میں پینسٹھ فی صد سے کم نمبر لے رہے ہیں۔ حالانکہ یہاں پاسنگ مارکس ہی 65 فی صد ہیں۔ یوں سمجھیں کہ ان تعلیمی ٹھیکیداروں کی اپنی ذہنی اختراع کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں طلبہ و طالبات کی برسوں کی دن رات کی محنت اور والدین کا دونوں ہاتھوں سے پیسے لٹانا منٹوں میں ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ اب اس سسٹم کے خلاف والدین اساتذہ اور طالب علموں کو مل کر آواز بلند کرنا ہوگی۔
انٹری ٹیسٹ کو آسان بنایا جائے۔ انٹری ٹیسٹ ٹیب کے بجائے تحریری طور پر لیا جائے۔ کیونکہ اس بار TEPS کا تجربہ زبردست ناکام ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ اس وقت بچوں کی شکایات کے باوجود کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی اس ادارے نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ پاکستان میں میڈیکل کو جتنا مشکل بنایا جا رہا ہے لوگوں کے ذہنوں میں اتنا ہی زیادہ اس تعلیم کے حصول کو قابلیت کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے والدین کی اپنے بچوں کے لیے یہی تعلیم ترجیح ہے۔ ملک میں اگر سرکاری میڈیکل کالج کم ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں پر فیسیں کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ وہ کالی بھیڑیں بننے کے بجائے فیس اتنی رکھیں جسے درمیانی آمدن والا شخص بھی افورڈ کر سکے۔ کئی بچے ایسے بھی ہیں جنہیں پاکستان میں میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا تو وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رخ کر لیتے ہیں کیونکہ ان کے لیے پاکستان کی نسبت وہاں یہ تعلیم آسان اور سستی ہوتی ہے۔ جب واپس اپنے ملک میں آتے ہیں تو ڈگری کی ویلیو یہاں کی نسبت زیادہ۔ اب یہ معیار کا دوہرا رخ بھی مکمل ختم کرنا ہوگا۔ میری میڈیکل بورڈ سے استدعا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ وطن عزیز پاکستان کو لٹیرے ڈاکٹروں کے بجائے مسیحا ڈاکٹر مہیاء کریں۔