پی ٹی آئی نا اہلی کی گہرائیوں میں

471

پی ٹی آئی کی حکومت اپنی نا اہلی کے اعلانات خود ہی کر رہی ہے ۔ مسائل کے حل کے بجائے سابق حکمراں خاندان کا پیچھا شروع کر دیا جاتا ہے ۔ اور حال یہ ہے کہ زرعی ملک کی حکمراں جماعت نے ملک میں چینی مافیا کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ان سے چینی نکلوانے کے بجائے چینی درآمد کر ڈالی اور وہ بھی پاکستان کی تاریخ کی مہنگی ترین چینی درآمد کی گئی ہے ۔ یہ چینی 109 روپے90پیسے فی کلو کے حساب سے پاکستان پہنچی ہے ۔ اب اسے یوٹیلٹی اسٹورز کو123 روپے فی کلو میں دیاجائے گا ۔ اس کے بعد عوام کو کتنے کی ملے گی اس کی اطلاع عوام کی چیخوں سے ہی ملے گی ۔ لیکن اب سے صرف تین سال قبل جو چینی60 روپے کلو مل رہی تھی اسے125 روپے پر پہنچا دیا گیا ہے ۔ یہ بات بھی معلوم کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ چینی ملک کے باہر سے منگوائی گئی ہے یا پاکستان ہی میں مافیا نے اسے چھپا رکھا تھا یاہزار پا؛نچ سوکلو منگوا کر اسے 28 ہزار 700 ٹن قرار دے دیا گیا یہ کھیل پاکستان میں پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی جاری ہے کہ پہلے کسی چیز کو بازارسے غائب کر دیا گیا پھر اس کو درآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور تھوڑی بہت درآمد کر کے ملک میں قلت ختم کردی گئی اورپاکستان ہی میں رکھی ہوئی چیز نئے ریٹ پر اپنے خفیہ گوداموں سے نکال لی ۔ ایسا لگتا ہے ایک بار پھر ایسا ہی ہوا ہے ۔ لیکن اس کی تحقیق کون کرے گا اور تصدیق کون کرے گا ۔ حکومت اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے ایک اور حماقت کر رہی ہے جس میں اس کی نا اہلی مزید کھل کر سامنے آ رہی ہے ۔ وہ سابق حکمرانوں کے شروع کیے ہوئے منصوبوں پر اپنے نام کی تختی لگا رہے ہیں یہ روایت نہایت خراب ہے اور جب بھی ایسا کیا گیا ہے اچھی نظر سے نہیں دیکھاگیا ۔ لیکن ڈھٹائی کا توکوئی علاج نہیں ۔ اب پی ٹی آئی حکومت اپنے بد ترین دشمن نواز دور کے اعلان کردہ گرین لائن منصوبے پراپنے نام کی تختی لگانے کے چکر میں ہے ۔ یہ تختی کی سیاست بہت گھٹیا ہے ۔ عمران خان شریف برادران کے معاملے میں جس حد تک غیر معیاری سیاست کر رہے ہیں اس کے بعد اسی گرین لائن منصوبے پر داد بھی پی ٹی آئی والے سمیٹ رہے ہیں ۔ عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ منصوبے کی لاگت16ارب روپے سے24 ارب سے زیادہ کیوں ہو گئی کیا یہ اضافی رقم بھی عوام کی جیب سے وصول کی جائے گی اس منصوبے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی کہ اس کی لاگت بڑھ گئی ۔ اس معاملے میں نواز شریف ، زرداری اور عمران سرکار سب برابر ہیں ۔ عمران خان …… کی ٹیم کس منہ سے نواز شریف دور کے منصوبے پر اپنے لیڈر کی تختی لگائے گی جبکہ دن رات ان لوگوں کو چور کہتے رہے ہیں ۔ اسی طرح حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے کا افتتاح کرنے کی ٹھان لی ہے لیکن یہ منصوبہ ہے کہاں ۔ سرکلر ریلوے تو دائرے میں چلنے والی ریل کو کہتے ہیں ۔ کیا یہ ٹرین یا سروس کراچی کے گرد گھومتی ہوئی جائے گی ۔ یہ نیو سرکلر ریلوے کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے یہ بھی وہی ہے جو مسلم لیگ کے سابق وزیر ریلوے کے دورمیں بنا تھا ۔ اس کا نومبر2020 میں سابق وزیر ریلوے شیخ رشید افتتاح کر چکے ہیں ۔ اب وزیر اعظم نے کر دیا ۔ اور یہ بھی ایک ٹکڑے پر چلے گا ۔ ابھی تو ریلوے لائنوں پر پختہ تجاوزات کے خاتمے کا مرحلہ نہیں آیا ۔ عدالت عظمیٰ نے 16اداروں سے این او سی لینے والے منصوبے کو توڑ دینے کا حکم دیا ہے لیکن غیر قانونی قابضین سے ہمدردی ہے اور اس کی وجہ سے منصوبے پر عمل ہو ہی نہیں رہا ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان لمبی لمبی تقریریں کرنے یا جملے بازی کو حکومت کی کامیابی سمجھتے ہیں اس لیے اس کام پر سارے وزراء لگے ہوئے ہیں ایک طرف شیخ رشید ہیں جو پیشگوئیوںمیں مصروف ہیں اور دوسری طرف فواد چودھری اورمراد سعید بیان بازیوں اور الزام تراشیوںمیں مصروف ہیں ۔ حکومت کو ان سب کاموں سے فرصت ملے تو پاکستانی عوام کے حقیقی مسائل کے حل کا کوئی راستہ نکالنے کی طرف توجہ دے گی ۔ حکومت کے سلیکٹرز بھی اب عوامی احتجاج یا دبائو سے متاثر نہیں ہو رہے کیونکہ ان کے کسی مفاد پر ضرب نہیں پڑ رہی ہے۔ مجموعی طوٍر پرپی ٹی آئی نے نا اہلی کی انتہائوںکو عبور کر لیا ہے ۔ اور یہ انتہا بلندی کی طرف نہیں زمین کی گہرائی کی طرف ہے اس سے زیادہ کوئی حکومت نہیں کر سکتی ۔ اور اگر ہے تو وہ پی ٹی آئی اور سندھ کی حکومتیں ہیںجن کو عوام کے مسائل کے بجائے اپنے وسائل بڑھانے کی زیادہ فکر رہتی ہے ۔