‘امریکی اکڑ ختم نہیں ہوئی’

645

افغانستان میں 20 برس پٹنے کے بعد بے عزتی کے ساتھ نکلا ہے لیکن اکڑ اور ضد کا یہ حال ہے کہ کبھی افغانستان پر بمباری کی جاتی ہے کبھی اس کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

اب بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ عالمی تنظیمیں طالبان سے لین دین کرسکتی ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ این جی اوز اقوام متحدہ سمیت مزید مخصوص عالمی تنظیمیں طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ خوراک، ادویات اور طبی آلات کا کاروبار کرسکتی ہیں۔ یہ حقانی نیٹ ورک تو امریکا کے نشانے پر رہا ہے۔ اس کے نام سے تو پاکستان کی جڑیں ہلادی گئی تھیں۔ 20 برس تک افغانستان میں انسانوں پر لاکھوں ٹن بارود برسا کر انسانی المیہ پیدا کرنے والا امریکا کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ اور بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے لین دین کے لیے دو لائسنس جاری کیے جارہے ہیں۔

افغانستان کو جس طرح عالمی سرمایہ دارانہ شکنجے میں کسنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ سارے کام اس کا حصہ ہیں۔ وہ چاہتے بھی نہیں کہ طالبان کی حکومت مضبوط ہوجائے یا مستحکم ہو اور وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ افغانستان میں کسی اور کی حکومت قائم ہوجائے۔ اس لیے دنیا کے مختلف اداروں کو رفتہ رفتہ افغانستان سے لین دین کی اجازت دی جارہی ہے۔ اس اعلان سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ امریکا اقوام متحدہ سے بڑا ہے۔ اس اعلان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور این جی اوز طالبان حقانی نیٹ ورک سے لین دین کرسکتے ہیں گویا ایک پٹا ہوا مہرہ، پٹے ہوئے پہلوان یا شکست خوردہ فوج کا والا ملک یہ اعلان کررہا ہے۔

امریکی رویے نے وہ منظر تازہ کردیا جب فرعون اپنے ہی دربار میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ سے شکست کھانے پر اسی کے جادوگر حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ اور ان کے رب پر ایمان لانے کا اعلان کررہے تھے تو اس وقت کے امریکا نے یہی کہا تھا کہ میری اجازت کے بغیر کیسے ایمان لے آئے۔ میں تمہیں سخت سزا دوں گا، ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پائوں کاٹ دوں گا۔ بعینہ آج کے فرعون (امریکا) نے اپنے ہی میدان میں شکست کے بعد اعلان کیا ہے کہ دنیا ان لوگوں سے کاروبار کرسکتی ہے جنہوں نے ہمیں 20 سال خوب مارا ہے اور اب افغانستان کے حکمران ہیں۔

امریکی اکڑ کے کیا کہنے۔ امریکا کے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بننے اور مستحکم ہونے دے۔ امریکی اشارے کے بعد پاکستان نے افغان ایئرلائن کو آنے کی اجازت دے دی اور سیب کے سوا تمام پھلوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس بھی ختم کردیا۔ یہ اشارہ ہے کہ اب دنیا کے دیگر ملک بھی افغانستان کی طالبان حکومت سے تعاون شروع کردیں گے۔ حیرت اس بات پر ہونی چاہیے کہ امریکا کو کھل کر نو کہنے والے اور فواد چودھری کے بقول ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کہنے والے ملک نے سب سے پہلے امریکی ہدایات پر عمل کیا۔ پہلے امریکا نے حکم دیا افغانستان کا حقہ پانی بند کردو۔ ایسا ہی کیا گیا۔ اب کہا گیا ہے کہ تجارت کرو۔ تو ہم تجارت کررہے ہیں۔ امریکا کونو کب کہا؟۔ آزاد ملک اور آزاد حکومت کا مطلب تو یہی ہوتا ہے جو طالبان نے کیا ہے۔ انہوں نے کروڑوں ڈالر مالیت کے ناکارہ امریکی فوجی سازوسامان اسکریپ کی بیرون ملک منتقلی پر پابندی لگادی ہے۔ اور یہ سامان اسمگل کرنے والوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ امریکی سازوسامان کوئی عام چیز نہیں ہے بلکہ اس کے فوجی سازوسامان کے بھارت پہنچ جانے سے پاکستان کو نقصان ہوسکتا ہے۔ چین یا پاکستان پہنچنے سے امریکا کو نقصان ہوسکتا ہے۔ ایسے میں طالبان کا یہ اقدام افغانستان کے تحفظ کے لیے بھی اہم تھا۔ اب ان حالات میں اقوام متحدہ کے لیے یہ سوال بجا طور پر سامنے آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کے بجائے افغانستان کے فیصلے امریکا کیسے کررہا ہے۔دوسری طرف پاکستانی وزیراعظم بات تو درست کہہ رہے ہیں کہ عالمی امن کے لیے طالبان سے مذاکرات ضروری ہیں۔ لیکن خان صاحب بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان فاتح ہیں امریکا شکست کھا کر جا چکا ہے۔ اب مذاکرات کی نہیں تعلقات کی ضرورت ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب طالبان کی امریکا کے خلاف کامیابی کی جو منطق پیش کررہے ہیں وہ بھی نرالی ہے۔ کہتے ہیں کہ اشرف غنی حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے طالبان کو کامیابی ملی ہے۔ یعنی امریکا کو تو شکست ہوئی ہی نہیں ہے۔ طالبان کے معاملے میں امریکا، پاکستانی وزیراعظم اور ان کے وزرا اور دنیا بھر کے ممالک کا ردعمل اور پھرتیاں ان کے خوف کا کھلا اظہار ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان والا نظام اس طرف رخ نہ کرلے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایسا نظام افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی تیزی سے مقبول ہوگا۔ اس لیے اس نظام کو افغانستان تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اللہ جب جس سے چاہے کام لے لے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔