خواہشات محدود ہی اچھی

347

خوشگوار و کامیاب زندگی کیلئے ضروری ہے کہ خواہشات کو محدود اور اپنے مطابق رکھا جائے. ہم اپنے آپ سے بلند توقعات رکھیں ضرور اور محنت بھی کریں لیکن خواہشات کو نہ بڑھنے دیا جائے. خاص طور پر جب ہمارے وسائل محدود ہوں. 

کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے حقیقت بدلا نہیں کرتی بلکہ ایسا کرنا مصیبت کو آواز دینےکے مترادف ہے. اس طرح کرکے ہم اپنے لیے مشکلات خود پیدا کررہے ہوتے ہیں جو مزید خرابیوں کا پیشِ خیمہ ثابت ہوتا ہے اور جب یہی پریشانیاں گھیرتی ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نصیب ہی ایسے ہیں. خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی. ایک خواہش ختم نہیں ہوتی دوسری جنم لے لیتی ہے. 

خواہشات اگر اپنی ضروریات و وسائل کو دیکھتے ہوئے کی جائیں تو کئی خوشیاں خودبخود جنم لیتی ہیں. مثال کے طور پر گھر کا بجٹ بناتے وقت آمدن سے کم رکھا جائے اور کچھ آمدنی جمع کرتے جائیں تو ایک وقت آتا ہے کہ ہمارے پاس اچھی رقم جمع ہوجاتی ہے جسکو ہم بوقت ضرورت استعمال کرسکتے ہیں. ایسے ہی دکھاوے کو مدِنظر نہ رکھا جائے بلکہ جتنا وسائل ہیں اتنے ہی پاؤں پھیلائیں اور سب سے بڑھ کر ہر کام میں اللہ کی رضا کو مدِنظر رکھا جائے. 

خواہشات کے پیچھے بھاگنے والا شخص کبھی خوش نہیں رہ سکتا بلکہ وہ جس چیز کو دیکھتا ہے خواہش کر بیٹھتا ہے اور جب پوری نہیں ہوتی تو اندر ہی اندر گھٹنا اور احساس کمتری میں مبتلا ہوکر اپنے نصیب کو کوسنا شروع کردیتا ہے. دوسروں سے حسد میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو روگ لگا لیتا ہے. ہم دوسروں کی ظاہری حالت دیکھ کر یہ اندازہ کرتے ہیں فلاں کتنا خوش نصیب ہے لیکن ہم کسی کی اندرونی کیفیت کا اندازہ نہیں کرتے کہ فلاں کو نجانے کتنے ہی دکھ و ڈپریشن اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے بھلے باہر سے اس کا لباس کتنا ہی شاندار دکھائی دے رہا ہو. اسی طرح ہوتا ہے کہ بظاہر آسودہ حال و عیش میں رہنے والے لوگ اپنے اندر ڈپریشن ، غم، شکایات لیے ہوئے ہوتے ہیں لیکن شرمندگی سے بچنے کیلئے کسی سے شیئر نہیں کرسکتے.