ارب پتیوں کی پتنی

491

بات تو حیرت کی ہے مگر حقیقت یہی کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام ہی کو ادھ موا نہیں کیا، وزیر اعظم عمران خان کے بھی ہوش و حواس مختل کر دیے ہیں اور حواس اس حد تک مختل ہوئے ہیں کہ موصوف کے ہوش و حواس بھی جواب دے گئے ہیں جن لوگوں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے ان کہنا ہے کہ جتنی جھریاں وزیر اعظم عمران خان کے چہرے اور پیشانی پر دکھائی دیتی ہیں اگر اتنی جھریاں کسی سماجی خاتون کے چہرے پر پڑتیں تو وہ اپنے چہرے کی کشش کی موت کے غم میں عدت میں بیٹھ جاتی اور یہ عدت چند ماہ کی نہیں ہوتی پوری زندگی کی ہوتی، وہ کسی سے ملنا جلنا تو کجا ملاقات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتی یہ تو عمران خان کی ہمت ہے جو انہیں مختلف تقاریب میں تقاریر پر اکساتی رہتی ہیں یوں بھی موصوف نیازی کہلانے کے بجائے خان کہلوانا پسند کرتے ہیں، تو پٹھانوں کی روش تو اختیار کرنا ہی پڑے گی کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نیازی صاحب کو خان بننا کچھ زیادہ ہی مہنگا پڑ گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ہم نوائوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری ان کی حکومت کی خرابی نا اہلی اور نالائقی کا ثبوت نہیں بلکہ یہ ثبوت اس حقیقت کا ہے کہ ہمیں ایک کنگلا ملک ملا تھا اور کسی کنگلے ملک کو چلانا منہ چلانے یعنی تقریر کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ہم نوائوں کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا جو طوفان آیا ہے وہ حقیقتاً طوفان نوح سے زیادہ خطرناک ہے۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اب کوئی بھی طاقت عمران خان کو پاکستان کا بانی ِ ثانی بننے سے نہیں روک سکتی، یہ پاکستان کا دوسرا جنم ثابت ہو گا۔ مگر حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پہلا جنم مکمل ہو گا تو دوسرا جنم معرض وجود میں آئے گا۔ کیونکہ مرے بغیر تو آدمی دوسرا جنم نہیں لے سکتا حالات اور واقعات تو اس حقیقت کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ بے لگام مہنگائی اور منہ زور بے روز گاری قوم کو بے موت مار دے گی۔
سیانوں سے سنا ہے کہ بھینس بھینس کی بہن ہوتی ہے، اور بارہا یہ ثابت بھی ہوا ہے کہ بھینس واقع بھینس کی بہن ہوتی ہے البتہ شرط یہ ہے کہ وہ کسی اہم عہدے پر فائز ہو۔ سیانوں سے یہ بھی سنا ہے کہ آدمی آدمی کا دارو ہوتا ہے مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ آدمی آدمی کا دارو بننے کے بجائے زہر ثابت ہوتا ہے، عام مشاہدہ یہ ہے کہ کسی امیدوار کے میرٹ پر سیاہی پھیر کر وزیر اعظم عمران خان کے اتحادی سیاست دانوں کے جوتے چاٹے جاتے ہیں اگر ہائی کورٹ میں زیادتی کی شکایت کی جائے تو عموماً جسٹس صاحب کمشنر صاحب کو ہدایت جاری کرتے ہیں کہ اس معاملے کی دیکھ بھال کی جائے۔ اور یوں معاملہ بھول بھلّیاں بن جاتا ہے، کیونکہ بااثر اور بااختیار شخصیت بہت مہنگی شراب پیتی ہے اس کے پاس دارو نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اور ٹھرّا پینا پاکستانی افسروں کی توہین ہے۔
یہ سن سن کر قوم کی سماعت سے لہو رسنے لگا ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے ملکی معیشت برباد ہو چکی ہے اس لیے عوام کو کوئی سہولت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے عوم کو صبر کرنا چاہیے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، مگر آج کل جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، انہیں کورونا وائرس چمٹ جاتا ہے یا ڈینگی ہو جاتا ہے، وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں جو رپورٹ پیش کی ہے وہ ان کی دیدہ دلیری کی جیتی جاگتی مثال ہے، واقعی وزیر خزانہ قابل تحسین اور بہادر آدمی ہیں، موصوف نے قومی اسمبلی میں اپنی حکومت کی جود و سخا کی جو رپورٹ پیش کی ہے وہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ موصوف کو عوام کے احساسات اور جذبات سے کوئی غرض نہیں، عوام وزیر اعظم کی سخاوت کے بارے میں کیا کہیں گے یا کیا سوچیں گے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں موصوف کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے کئی ارب پتی افراد کو لگ بھگ 54ارب روپے کا قرضہ معاف کر دیا ہے کیونکہ اگر ان کا قرضہ معاف نہ کیا جاتا تو خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خدشہ ہو سکتا تھا۔ اور اس خدشے کو زیادہ ہولناک بنانے کے لیے بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک کنگلا ہے، معیشت تباہ حال ہے تو اربوں روپے کے قرضے کیوں معاف کیے گئے ہیں، ٹی وی چینلوں کے تبصرہ نگار دو حصوں میں بٹ چکے ہیں، بعض اینکرز کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو گی مگر کچھ اینکرز یہ اصرار کررہے ہیں کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ مستعفی ہو جائیںگے، گویا چت بھی ان کی پٹ بھی ان کی، عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی تو ان کا تجزیہ قابل تحسین اور ان کی معلومات قابل تحسین سمجھی جائیں گی، گویا انہیں بہت پہنچی ہوئی شخصیت سمجھا جائے گا۔ اور اگر تحریک ناکام ہو گئی تو بھی ان کا تجزیہ اور دور اندیشی قابل تحسین سمجھی جائے گی، مگر ایک بات ایسی ہے کہ جسے دانستہ طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے مقتدر سیاست دانوں کا تعلق پاکستان کے کسی بھی صوبے سے ہو وہ الیکشن مہم کے دوران جو سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اور مخالف امیدوار کے ووٹروں کو خریدتے ہیں اس کی قیمت بینکوں سے قرض لے کر اور پھر اس قرضے کو معاف کراکر پوری کرتے ہیں، اب دیکھا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اربوں روپے کے جو قرضے معاف کیے ہیں ان میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کون کون سے ارب پتی شامل ہیں یا قرضے معاف کرا کر عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے اور کتنے قرضے معاف کیے جائیں گے، کیونکہ بینک تو سیاست دانوں کی تجوریاں ہیں جب چاہیں جتنے پیسے چاہیں اس تجوری سے نکال لیتے ہیں اور پھر مک مکا کر کے قصہ مکا دیتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو یہ سہولت کیوں فراہم نہیں کی جاتی کیا عوام کا ملکی ذخائر اور وسائل پر کوئی حق نہیں، عدالت عظمیٰ ہر معاملے میں از خود نوٹس لے کر اپنی برتری کا احساس دلاتی رہتی ہے، مگر جو لوگ ارب پتی ہیں حکومت ان کی پتنی کیوں بن جاتی ہے، اور عدالت عظمیٰ، عظمیٰ بیگم کے خلاف از خود نوٹس کیوں نہیں لیتی۔