مولانا مودودیؒ اورجماعت اسلامی !

159

سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

26اگست 1941ء کو لاہور میں پورے برصغیر پاک و ہند سے کچھ لوگ جو پہلے ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے متاثر تھے اور ماہنامہ ترجما ن القرآن کے ذریعے ان کے افکار و نظریات اور ان کی ذات گرامی سے بخوبی واقفیت بھی رکھتے تھے ٗ ان کی دعوت پر جمع ہوئے اور’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک مختصر سی نئی جماعت وجود میں لائے۔ اس جماعت کی پشت پر وہ فکری رہنمائی تھی جو کئی سال سے مولانا مودودیؒ انفرادی طور پر فراہم کر رہے تھے اور جس میں خود علامہ اقبال مرحوم کے مشورے بھی شامل تھے۔ مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبال ؒ کے درمیان گہرا تعلق اس امر سے واضح ہوجاتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے نزدیک ’’دارالاسلام ‘‘ کے نام سے جماعت اسلامی کا جوپہلا مرکز قائم ہوا ، اس کے لیے زمین علامہ اقبالؒ کے توسط سے فراہم ہوئی تھی۔ یہ زمین علامہ اقبال ؒ کو پنجاب کے ایک زمیندار چوہدری نیاز علی صاحب نے اس مقصدکے لیے پیش کی تھی کہ اس پر دین کا کام کرنے کے لیے کوئی مرکز بنائیں ۔ علامہ اقبال ؒ نے اس کے لیے مولانا مودودیؒکا انتخاب کیا اور ان کو دعوت دی کہ وہ اس پر ایسا مرکز بنائیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو نہ تو کوئی جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی انکار کرسکتا ہے ۔ یہ تاریخی حقیقت ان تمام اعتراضات اور الزامات کی بھی تردید کردیتی ہے جو پاکستان کی مخالفت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ پر لگائے جاتے ہیں۔ مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ نے خود پورے برصغیرہند و پاک میں مولانا مودودیؒ کو اس قابل سمجھا کہ وہ ایک ایسی بستی اور مرکز کی بنیاد رکھیں جہاں سے برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی ٹھیک اور درست رہنمائی ہوسکے۔ وہ زمین تو اب ہندوستان میں متروکہ املاک میں شامل ہے لیکن وہ لوگ جنھوں نے یہ زمین دی تھی وہ اب بھی جماعت اسلامی کے زیر انتظام ادارہ دارالاسلام جوہر آباد سے وابستہ ہیں اور جماعت کا ان کے ساتھ رابطہ اور تعلق بھی قائم ہے ۔
جماعت اسلامی کی تنظیم کیوں قائم کی گئی ۔ اس کی کیا ضرورت تھی جبکہ اس وقت مسلم لیگ اور مسلمانوں کی دیگر جماعتیں پہلے ہی سے موجود تھیں ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کوئی ایسے آدمی نہیں تھے کہ محض ایک اضافی جماعت بنانے کے لیے یا اپنی لیڈر شپ چمکانے کے لیے ان کو کسی نئی جماعت کی ضرورت پڑتی ۔ انھوں نے ترجمان القرآن میں تفصیل کے ساتھ وہ وجوہات اور اسباب بیان کردیے تھے جس کے نتیجے میں وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک ایسی نئی جماعت کی ضرورت ہے جو ان مقاصد کی حامل اور اس طریق کار پر کاربند ہو جیسی اللہ کے حکم پر حضور نبی کریم انے صحابہ کرامؓ کی معیت میں بنائی تھی، جس کے نتیجے میں ایک انقلاب برپا ہوا تھا اور اس کی متابعت میں آج کوئی ایسی جماعت موجود نہیں ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اس امت کے آخر میں بھی اصلاح اسی طریقے پر ہوگی جس طریقے سے اس امت کی اصلاح ابتداء میں ہوئی تھی ۔ حضورنبی کریم انے جن مقاصد کے لیے اور جس طریق کار کی بنیاد پر جماعت بنائی تھی آج انھی مقاصد کے لیے اور اسی طریق کار کی بنیاد پرجو جماعت بنے گی تو ہی امت کی اصلاح ہوسکے گی ۔ اللہ اور اس کے رسول انے امت کی جو ذمے داری بیان کی ہے اس کے لیے امت کو دوبارہ مجتمع اور متحد کرنا ناگزیر ہے اور اس کے لیے ایک منظم جماعت کی ضرورت ہے جس کی وضاحت مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تاسیس جماعت سے پہلے کردی تھی ۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ مولانا مودودیؒنے اپنی طرف سے کوئی نئی فقہ نہیں دی ہے بلکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں امت مسلمہ کو ایک مقصد کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ تاہم بعض لوگوں نے انھیں بھی علامہ اقبال کی طرح موضوع تہمت بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔
علامہ اقبال مرحوم نے اپنی ایک فارسی نظم میں بحضوررحمت اللعالمین ا فریاد کی ہے کہ لوگ مجھ پر طرح طرح کے الزامات لگا رہے ہیں ۔ کوئی مجھے انگریزوں کا ایجنٹ کہتا ہے اور کوئی یہ کہتا ہے کہ میں مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنا چاہتا ہوں۔ وہ حضورنبی کریم اکے حضورفریاد کرتے ہیں:
’’میری زبان ‘ میرے کلام اور میری فکر میں اگر قرآن کے علاہ کوئی چیز چھپی ہوئی ہے تو مجھے روز محشر خوار و رسوا کردے اور اپنے بوسہ پاسے بے نصیب کردے ۔‘‘
علامہ اقبالؒ اپنی اس طویل نظم میں حضور اسے یہ فریاد بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے تو مسلمانوں کو حق پیش کیا ہے اور تیری طرف بلایا ہے اور تیرے ہی سامنے ان کے جملہ امراض کو پیش کرکے اس بیمار اور مریض کو تیرے حضورلا کر اس لیے پیش کیا ہے کہ آ پ اس کاعلاج کردیں ۔ پھر علامہ اقبال ؒ حضوراسے اپنے لیے دعا کی التجا کرتے ہیں:
’’خدائے عزو جل کے حضورمیرے حق میں دعا کیجیے کہ اللہ، اس کے رسول ؐاور اس کے دین کے ساتھ میرا جو عشق اور محبت ہے تو وہ میرا عمل بھی اس کے مطابق کردے۔‘‘
علامہ اقبال ؒ کو حضورنبی کریم اکے ساتھ عشق تھا۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کو وہ جانتے تھے ۔ انھیں معلوم تھا کہ امت کی اصلاح قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہی ہوسکتی ہے ۔ امت کی اصلاح کے اس کام کے لیے جن افراد اور مردان کارکی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہیں تھے ۔ مولانا مودودیؒکے پاس بھی ایسے مردان کار نہیں تھے ۔ فرد واحد کے لیے یہ بہت ہی بڑا مشکل کام تھا ۔ تن تنہا بالکل ابتداء سے ایک کام کا آغاز کرنا جو ئے شیرلانے کے مترادف تھا ۔ کام کی ابتداء کے لیے جہاں علم و فراست کے وافرسرمائے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بہت بڑا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے ۔ اس کے لیے دوربینی اور بلند ہمتی کے ساتھ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پہلی اینٹ رکھی ۔
پورے برصغیر ہندو پاک سے پچھترآدمی اکٹھے ہوئے ۔ ان میں سے چندایک جید علماء تھے جو اپنے علم اور تقویٰ میں ممتاز تھے ، چند ایک اچھے اور مخلص لوگ تھے اور کچھ ان میں عام لوگ تھے جو مولانا مودودیؒکی تحریروں سے متاثر ہو کر آئے تھے۔ ان تھوڑے سے لوگوں نے جو غریب تھے انتہائی قلیل سرمائے سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ انھوں نے اس جماعت کا کوئی عقیدہ اور کوئی مقصد اپنی طرف سے پیش نہیں کیا بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں جماعت کے عقیدے اور مقصد کا تعین کیا جو جماعت اسلامی کے دستور میں پوری تشریح کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے کہ ہمارا عقیدہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ ہوگا۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو اللہ رب العالمین نے سکھایا ہے اور حضورنبی کریم انے امت کے ہرفرد کو اس کی تعلیم دی ہے ۔ مولانا مودودیؒ نے اپنے عقیدے کے بارے میں وہی بتایا جس پر تمام امت کو مجتمع اور متحد کیا جاسکتا ہے ۔ کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ امت کا بنیادی عقیدہ صرف لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ ہے جس پر پوری امت کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی تشریح وہی معتبر اور درست ہے جو قرآن اور سنت میں کردی گئی ہے ۔ عقیدے کی من مانی تشریحات ہی کے نتیجے میں اختلافات رونما ہوئے ہیں ۔
کتاب و سنت کے مطابق عقیدے کی تفصیلی تشریح کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒنے یہ بھی بتایا کہ جماعت اسلامی کا مقصد حقیقی کیا ہے؟انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا مقصد صر ف اللہ رب العالمین کی رضا کا حصول ہے ۔ ہماری ساری جدوجہد اس لیے ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور آخرت میں ہمیں فلاح اور کامیابی نصیب ہو ۔
حضورنبی کریم ا،خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓکے مبارک دور میں اصلاح کے لیے جو طریق اختیار کیا گیا تھا اس کے تمام اصولوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں جمع کرکے ان کے مطابق جماعت اسلامی کی تنظیم کی گئی ہے ۔ جماعت اسلامی کی تشکیل کے موقع پر وقت کے علمائے کرام کو بھی شریک مشورہ رکھا گیا تھا ۔ تاسیس جماعت سے پہلے علامہ اقبالؒبھی مشورے میں شامل رہے ہیں ۔ ابتدائی ارکان جنھوں نے جماعت کی تاسیس میں حصہ لیا تھا ، ان میں دو بہت بڑے نام ہیں اگرچہ وہ بعد میں جماعت میں نہ رہے لیکن وہ جماعت اسلامی کی تشکیل میں نہ صرف شریک مشورہ رہے ہیں بلکہ جماعت کا دستور بھی انھی کے مشوروں سے بنا ۔ اس میں ایک نام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒکا ہے جو مولانا مودودیؒ کی طرح سارے عالم اسلام اور پورے عالم عرب میں ایک معروف شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہمیشہ کوشاں رہے کہ اکابر امت متحد ہوجائیں ۔ جو لوگ ان کے ساتھ نہ آسکے ان کے بارے میں کبھی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ غلط راستے پر ہیں ۔ جماعت اسلامی امت کو متحد کرنے کی ایک تحریک ہے جسے مولانا مودودیؒ نے شروع کیا تھا ۔متحدہ مجلس عمل الحمد للہ انھی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ اگر جماعت اسلامی کوئی فرقہ ہوتی اور ہم کوئی مکتب فکر ہوتے تو ہم اتحاد اور اتفاق کے لیے کوئی خدمت انجام نہ دے سکتے ۔ یہ خدمت اسی لیے سرانجام دینے کے قابل ہیں کہ ہم نے کسی خاص مکتب فکر کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہیں کیا ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کو جو چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ نے پورے عالم اسلام کے خلاف ایک اعلان جنگ کر رکھا ہے۔وہ دنیا اور اس پر بسنے والی انسانیت پر اپنا نظام ِظلم مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس اللہ رب العالمین کا عطا کردہ اسلام کا نظام رحمت موجود ہے۔ اس نظام کے قیام کے لیے مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد ،اور اس چیلنج کامقابلہ کرنے کے لیے امت مسلمہ کو یکجا اور یکسو کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اسی اتحاد کی داعی ہے۔ اسی لیے جماعت اسلامی نے کوئی الگ مذہب اور فرقہ نہیں بنایا تاکہ وہ امت سے الگ تھلگ ہو کر نہ رہ جائے بلکہ امت کے درمیان رہ کر مسلمانوں کو کلمہ توحید پر جمع کرکے حضور نبی کریم ا کے طریق کار کے مطابق اسلامی حکومت قائم کی جا سکے ۔