عہد حاضر کی علمی فکری عملی شخصیت

157

نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ 1979-1903)ء( عہد حاضر کی مسلم دنیا اور اسلامی فکر کی ترویج کے لیے عظیم مقام رکھتے ہیں ۔ مغربی دنیا کی تحریروں میں اسلامی جدت پسندی کے مقابلہ میں سید مودودی ؒ نے اسلامی نظریات کی تشکیل نو اور نشاۃ ثانیہ پر زور دیا جس کے لیے انہوںنے اسلامی تعلیمات ، اسلامی تہذیب پر یلغار کی مزاحمت کے لیے یورپ کے تجربات کو پوری گہرائی سے دیکھا اور ملت اسلامیہ کو بھر پور علمی، فکری اور عملی رہنمائی دی ۔ عہد حاضر میں مسلمانوں کے نظریات پر مولانا مودودی ؒ کے افکار نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے ، دنیا بھر میں برپا ہونے والی احیائے اسلام کی تحریکوں پر ان کے افکار کا اثر

غیر معمولی رہاہے ۔ان کا اچھوتا انداز بیان ہی ہے جس نے اپنی ساخت و جوہر ،دونوں حوالوں سے کئی مسلمان نسلوں کی ذہنی اور معاشرتی تربیت کی ان کی اپنی زندگی میں اسلام کے شیدائیوں کی دو نسلیں اسلامی دنیا کے دینی اور سیاسی قالب کا حصہ بنیں ۔ سید مودودی ؒ کی فکر ، انقلابی تحریریں پریشان فکر انسانوں کے لیے آب حیات کی مانندہیں جس سے فرد مقصد تخلیق اور مقاصد زندگی سے آگاہ ہوتاہے اور بس اللہ کی رضا ، دعوت و تبلیغ کے لیے سرگرداں رہتاہے ۔
مولانا سید مودودی کی تحریروں نے اسلامی حلقوں میں نئی سوچ اور فکر پیدا کی ۔ سب سے پہلے اثرات مصر کی سعید روحوں پر ہوئے ۔ اپنے ہاں معاشرتی تبدیلی کے اپنے اسلامی ایجنڈے کی توسیع و تکمیل کے لیے مولانا مودودی کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کرنا شروع کی ۔ یہی صورتحال اور اثرات ترکی ، شام ، عراق ، ایران ، انڈونیشیا ، ملائیشیا ، افغانستان ، سری لنکا ، نائیجریا ، جنوبی افریقہ ، یوگنڈا اور کینیا کی رہی ۔مولانا مودودی کی فکر نے پورے عالم میں رفتہ رفتہ اہمیت اور شہرت پائی اور بے چین روحوں کو قرار مل گیا ۔
مولاناسیدمودودی کی تحریریں 1950 ء کے عشرہ میں ہی امریکہ ،کینیڈا اور یورپی ممالک تک بھی پہنچ گئی تھیں لیکن بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میں ان تحریروں کو بڑی مقبولیت مل گئی جب 1953ء میں مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ پر کتابچہ لکھا اور شائع کیا اس تحریر کے بڑے اثرات پیدا ہوئے تو اسی جرم کی پاداش میں اس وقت کی فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تو انڈونیشیا سے مراکش تک ساری مسلم دنیا میں احتجاج کی لہر پھیل گئی اس سے مسلم دنیا میں مولانا مودودی کی فہم و فراست کی دھاک پیٹھ گئی اور جب مولانا مودودی نے حکومت سے معافی مانگنے اور پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل کرنے سے یکسر انکار کردیا تو دنیا کو اندازہ ہوا کہ مولانا کردار و عزیمت کے کتنے بلند مرتبے پر فائز ہیں بعد کے برسوں میں مولانا کے اثرو رسوخ میں بے پناہ اضافہ ہونے لگا ۔
امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں مولانا مودودی کی فکر مندی کا اظہار ان کی کتاب’’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘میں بھر پور انداز میں ہوتاہے اب یہ’’ تحریک آزادی ہند اور مسلمان ‘‘ حصہ اول اور دوم میں شامل ہے ۔
مولانا مودودی دین متین اسلام کے آفا قی ، ہمہ گیر ،ہمہ جہت تصورکے قائل ہیں ۔ چند سزائوں کے طور پر وہ شریعت کے محدود تصور کے قائل نہیں تھے ان کے نزدیک اسلام اس پورے نقشہ کا نام ہے نہ کر اس کے جدا جدا ٹکڑوں کا ۔
سید مودودی نے خود کئی سیاسی ، قانونی ، تعلیمی ، معاشرتی اور بین الاقوامی امور کے سلسلہ میں عوامی سطح پر کردا ر ادا کیا ۔ اقتدار پر زبردستی ، طاقت اور ناجائز بنیادوں پر قابض فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جنا ح کے صدارتی انتخاب میں حمایت اسی تناظر میں کی کہ مفتی محمد شفیع کا فتویٰ درست اور حق پر مبنی ہے کہ جبر کے ان حالات میں فاطمہ جناح کی نامزدگی جائز ہے ۔ مولانا مودودی نے پورے شرح صدر کے ساتھ اعلان کیا کہ فوجی استبداد ، فوجی ڈکٹیٹر شپ ملک کے لیے بڑی برائی ہے اس سے بچانے اور نجات کے لیے یہ فعل قابل ترجیح تھا کہ ایک غیر معمولی اور بزرگ خاتون کی قیادت قبول کرلی جائے ۔ مولانا مودودی کی اس دلیل اور فکر کی بنیاد پر فوجی آمریت کے مقابلہ میں فاطمہ جناح کی قیادت کو قبول عام بخشااور دینی طبقوں نے یکسوئی سے صدارتی انتخابی مہم میں کردار ادا کیا ۔
سید مودودی کی علمی ، فکری اور عملی جہتوں میں بنیادی عنصر وسعت فکر و نظر کا ہے ۔ مولانا مودودی خود حنفی فقہ کو ترجیح دیتے تھے مگر انہوں نے اس بنیاد پر دیگر مسالک اورفقہا کی جانب سے کئے گئے کام کی تعریف میں تنگ نظری سے کام نہیں لیا ۔ دوسرے مسالک کے لیے غیر معمولی فراخ دلی کا اظہار کیا ان کا احترام کرتے ہوئے ایک عادلانہ رویہ اختیار کیا ان کا کہنا ہے کہ’’ فقہی اختلافات جتنے بھی ہوئے ہیں تعبیرات میں قیاسی و اجتہادی مسائل میں دائرہ اباحت کے قوانین و ضوابط میں ہوئے ہیں ۔ ان آراء کی حیثیت بہر حال ایک تجربہ کی ہوتی ہے قانون و ہ صرف اس وقت بنتاہے جب اس پر اجماع ہو ، اتفاق رائے ہو جائے یا جمہور کی اکثریت اس کو تسلیم کرلے ، فتویٰ تو اسی پر جاری ہو ۔ ‘‘
مولانا مودودی کی فکری بنیادیں اسی سے سرشار تھیں کہ قرآن و سنت کی دعوت ہی یہ ہے کہ اللہ کے احکامات کی اطاعت لازم ہے ۔ یہ قوانین وقتی اور طبعی نہیں ہیں ، دائمی قوانین ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں ؑ کے ذریعے دیے ہیں ۔ انسان کا کام ہے کہ ان قوانین کے آگے سر تسلیم خم کرے ۔ ان احکامات کے مقابلہ میں اپنی خود مختاری سے دستبردار ہو جائے اسی چیز کا نام قرآن کی زبان میں اسلام ہے ۔ اسلامی ریاست کی اولین خصوصیات یہی ہیں کہ صرف زبان سے ہی نہیں ، بلکہ عمل سے ثابت کیا جاتاہے کہ ملک خدا کاہے ، باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملہ میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے ۔ حکومت اس کی مالک نہیں اور رعیت اس کی غلام نہیں ۔ اسلامی ریاست کی روح تقویٰ ، خدا ترسی اور پرہیز گاری ہے جس کا سب سے بڑا مظہر خودریاست کا سربراہ ہوتاہے ۔ حکومت کا پورا نظام ، نظام عدل اور سپہ سالاری سب اسی روح سے سرشار ہوں تو اسلامی ریاست انسانوں کی فلاح اور دنیا میں امن و استحکام کا ذریعہ بنتی ہے ۔ اسلامی ریاست ان برائیوں کا خاتمہ کرنا اور دبانا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسندیدہیں ۔
مولانا مودودی عامۃ الناس کے جمہوری نظام کے لیے آزادانہ انتخاب کو لازمی تصور کرتے ہیں ۔ عوامی اعتماد ، شعور اور فیصلہ سازی کی قوت میں اسی وقت اضافہ ہو گا جب انہیں احساس ہو کہ وہ بااختیار ہیں اور ان کی گواہی ، ان کی رائے ،ان کا ووٹ ریاستی نظام پر اثر انداز ہوتاہے ۔ پھر مولانا ریاستی نظام میں شورائی نظام کو اہم ترین قاعدہ قرار دیتے ہیں ۔ شورائیت کا نظام علم ، تقویٰ اور اصابت رائے پر ہو ۔ عام لوگوں کا اعتماد ہو ۔ آئین پاکستان میں آرٹیکل 62-63 نظام شورائیت کے ممبران کے لیے معیار مقرر کرنے کے ہیں لیکن جماعتی نظام اگر خود امیدواران کو اس معیار پر نہ پرکھیں تو انجام تو وہی ہوگا جس کے کڑوے نتائج سب بھگت رہے ہیں ۔ اظہار رائے کی آزادی کا انسانوں کو پورا حق ہے ۔ اسلام نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو مسلمانوں کا حق اور فرض قرار دیاہے ۔ مولانا مودودی کے نزدیک سیاسی ریاستی نظام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، آزادانہ انتخابات ، اسلامی احکامات کے مطابق شورائی نظام ، اسلامی اصولوں کی پابند اظہار رائے کی آزادی ، خدا اور خلق کے سامنے جوابدہی ، بیت المال کی حفاظت ، امانت و دیانت کی بالادستی ، قانونی عدل کی حکمرانی ہی اصل بنیاد ہے ۔ مولانا موددوی کی اسی فکر کو امریکہ اور مغربی دنیا سیاسی اسلام قرار دے کر مخالفت کی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے ۔ مولانا مودودی نے کہاکسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر خاتم النبیین ؐ ، خلفائے راشدین ؓ، صحابہ کرام ؓ ، اہل بیت ؓ ، علی ؓ و حسین کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام ہے۔ یہی کام امت کو تاقیامت جاری رکھناہے ۔