سیرت رسول ﷺ

274

سیدنا محمدؐ کی سیرت ایک فرد کی سیرت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے، جو انسانی پیکر میں جلوہ گر ہوئی۔ وہ زندگی سے کٹے ہوئے ایک درویش کی سرگزشت نہیں ہے جو کنارے بیٹھ کر محض اپنی انفرادی تعمیر میں مصرو ف رہا ہو، بلکہ وہ ایک ایسی ہستی کی آپ بیتی ہے جو ایک اجتماعی تحریک کی روح رواں تھی۔ وہ محض ایک انسان کی نہیں بلکہ ایک انسان ساز کی آواز ہے۔ وہ عالمِ نو کے معمار کے کارنامے پر مشتمل ہے۔ ایک پوری جماعت، ایک انقلابی تحریک اور ایک ہیئت اجتماعیہ اس کارنامے کی تفصیل اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
سرورعالمؐ کی سیرت غارِحرا سے غارِثور تک، حرمِ کعبہ سے لے کر طائف کے بازاروں تک، اْمہات المومنینؓ کے حجروں سے لے کر میدان ہاے جنگ تک چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ حیات کے اَوراق کی زینت ہیں۔ ابوبکر و عمر، عثمان و علی، عمار یاسر و خالد و خویلد اور بلال و صہیب رضوان اللہ علیہم اجمعین، سب کے سب ایک ہی کتابِ سیرت کے چمکتے دمکتے زندہ اوراق ہیں۔ ایک چمن کا چمن ہے کہ جس کے لالہ و گل اور نرگس و نسترن کی ایک ایک پتی پر اس چمن کے مالیؐ کی مقدس زندگی مرقوم ہے۔ وہ قافلۂ بہاراں وقت کی جس سرزمین سے گزرا ہے، اس کے ذرّے ذرّے پر نگہت کی مہریں ثبت کرگیا ہے۔ دنیا کی اس بلند ترین شخصیت کو اگر سیرت نگاری میں محض ایک فرد بنا کر پیش کیا جائے اور سوانح نگاری کے مروّجہ طرز پر اس کی زندگی کے بڑے بڑے کاموں، اس کی نمایاں مہمات اور اس کے اخلاق و عادات کو بیان کر دیا جائے، کچھ تاریخوں کی چھان بین اور واقعات کی کھوج کرید کر دی جائے، تو ایسی سیرت نگاری سے صحیح منشاء ہرگز پورا نہ ہوگا۔
پھر سرورعالمؐ کی زندگی کی مثال کسی ایک تالاب میں کھڑے پانی کی سی نہیں کہ جس کے ایک کنارے کھڑے ہوکر ہم بیک نظر اس کا جائزہ لے ڈالیں۔ وہ تو ایک بہتا ہوا دریا ہے کہ جس میں حرکت ہے، روانی ہے، کش مکش ہے، موج و حباب ہیں، سیپیاں اور موتی ہیں، اور جس کے پانی سے مْردہ کھیتیاں مسلسل زندگی پا رہی ہیں۔ اس دریا کا رمز آشنا ہونے کے لیے، اس کے ساتھ ساتھ رواں ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے سیرت کی بہت سی کتابیں پڑھ کر نادر معلومات تو ملتی ہیں، لیکن ہمارے اندر تحریک پیدا نہیں ہوتی۔ جذبے انگڑائی نہیں لیتے، عزم و ہمت کی رگوں میں نیا خون نہیں دوڑتا، ذوقِ عمل میں نئی حرارت نہیں آتی، ہماری زندگیوں کا جمود نہیں ٹوٹتا، وہ شرارِ آرزو ہم اخذ نہیں کر پاتے کہ جس کی گرمی نے ایک یکہ و تنہا اور بے سروسامان فرد کو قرنوں کے جمے ہوئے فاسد نظام کے خلاف معرکہ آرا کر دیا۔
اصل میں آپؐ معروف اصطلاح کے محدود تصور کے مطابق فقط ایک ’بڑے آدمی‘ نہ تھے۔ آپؐ کی سیرت ایک ایسے’بڑے‘ یا مشہور آدمی کی داستانِ زندگی نہیں ہے، جسے لوگوں کو مشاہیر کے سوانحی سلسلوں میں گنوایا جاتا ہے۔ یہ ہستی ’بڑے‘ اور ’مشہور‘ آدمیوں کی سوانح سے بہت اْوپر کی نعمت ِ الٰہی ہے۔
دنیا میں بڑے آدمی بہت پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ بڑے لوگ وہ بھی ہیں جنھوں نے کوئی اچھی تعلیم اور کوئی تعمیری فکر پیش کر دی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے اخلاق و قانون کے نظام سوچے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے اصلاحِ معاشرہ کے کام کیے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے ملک فتح کیے اور بہادری سے منسوب کاموں کی میراث چھوڑی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے عظیم الشان سلطنتیں چلائیںاور وہ بھی ہیں جنھوں نے فقر ودرویشی کے حیرت انگیز نمونے ہمارے سامنے پیش کیے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے دنیا کے سامنے انفرادی اخلاق کا اْونچے سے اْونچا معیار قائم کر دکھایا… مگر ایسے بڑے آدمیوں کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو بالعموم یہی دیکھتے ہیں کہ ان کی قوتوں کا سارا رس اْس زندگی کی کسی ایک شاخ نے چْوس لیا اور باقی ٹہنیاں سوکھی رہ گئیں۔ ایک پہلو اگر بہت زیادہ روشن ملتا ہے تو کوئی دوسرا پہلو تاریک دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف تفریط۔
لیکن، ان سب کے برعکس نبیؐ کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن بھی ہے اور پھر ہر گوشہ ایک ہی طرح کے کمال کا نمونہ ہے۔ جلال ہے تو جمال بھی ہے، روحانیت ہے تو مادیت بھی ہے، معاد ہے تو معاش بھی ہے، دین ہے تو دنیا بھی ہے، اک گونہ بے خودی بھی ہے مگر اس کے اندر خودی بھی کارفرما ہے۔ اللہ کی عبادت ہے تو اس کے بندوں کے لیے محبت و شفقت بھی ہے۔ کڑا اجتماعی نظم ہے تو فرد کے حقوق کا احترام بھی ہے۔ گہری مذہبیت ہے تو دوسری طرف ہمہ گیر سیاست اور کارِ ریاست بھی ہے۔ قوم کی قیادت میں انہماک ہے مگر ساتھ ساتھ اَزدواجی زندگی کا دھارا بھی خوب صورتی سے چل رہا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی ہے تو ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کا اہتمام بھی ہے۔
آپؐ کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم، ایک امیر، ایک وزیر، ایک افسر، ایک ملازم، ایک آقا، ایک سپاہی، ایک تاجر، ایک مزدور، ایک جج، ایک معلّم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفارمر، ایک فلسفی، ایک ادیب، یعنی ہر کوئی یکساں درس عمل لے سکتا ہے۔ وہاں ایک باپ کے لیے، ایک ہم سفر کے لیے اور ایک پڑوسی کے لیے یکساں مثالی نمونہ موجود ہے۔ ایک بار جو اس درس گاہ تک آپہنچا ہے پھر اسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ اس ایک ہستی میں جلوہ گر ہے۔ اس لیے دنیا کے منصف مزاج لوگوں کے نزدیک اس ہستی کو ’انسانِ اعظم‘ کے لقب سے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ تاریخ کے پاس ’انسان اعظم‘ صرف یہی ایک ہے جس کو چراغ بناکر ہر دور میں ہم ایوانِ حیات روشن کرسکتے ہیں۔ کروڑوں افراد نے اس سے روشنی لی، لاکھوں بزرگوں نے اپنے علم و عمل کے دیے اسی کی لو سے جلائے، دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا پیغام گونج رہا ہے اور دیس دیس کے تمدن پر گہرے اثرات اس کی دی ہوئی تعلیم کے پڑے ہیں۔ کوئی انسان نہیں جو اس ’انسانِ اعظم‘ کا کسی نہ کسی پہلو سے زیراحسان نہ ہو۔ لیکن کتنے رنج و اَلم کا مقام ہے کہ اس کے احسان مند اس کو جانتے نہیں، اس سے تعارف نہیں رکھتے۔
اس کی ہستی کے تعارف اور اس کے پیغام کے فروغ کی ذمے داری اس کی قائم کردہ اْمت پر تھی، لیکن وہ اْمت خود ہی اْس سے اور اْس کے پیغام سے دْور جا پڑی ہے۔ اس کے پاس کتابوں کے اَوراق میں کیا کچھ موجود نہیں ہے، لیکن اس کی کھلی ہوئی کتابِ عمل کے اَوراق پر ’انسانِ اعظم‘ کی سیرت کی کوئی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی اْمت اور قوم کی مذہبیت، اس کی سیاست، اس کی معاشرت، اس کے اخلاق، اس کے قانونی نظام اور اس کے کلچر پر اس سیرت کے بہت ہی دھندلے نشانات باقی رہ گئے ہیں، اور وہ بھی بے شمار نت نئے نقوش میں خلط ملط ہوکر مسخ ہورہے ہیں۔ اس اْمت یا قوم کا اجتماعی ماحول زمین کے کسی ایک چپے پر بھی یہ گواہی نہیں دیتا کہ میں محمدؐ کے دیے ہوئے اصولوں اور اس کی قائم کردہ روایات و اقدار کا آئینہ دار ہوں، بلکہ اْلٹا یہ اْمت اور یہ قوم دنیا کے مختلف فاسد نظاموں کے دروازوں پر بھیک مانگتی بھٹکتی پھرتی ہے اور ہر قائم شدہ طاقت سے مرعوب ہوکر اپنے سرمایۂ افتخار پر شرمسار دکھائی دیتی ہے۔ اس نے قرآن کو غلافوں میں لپیٹ دیا ہے اور ’انسانِ اعظم‘ کی سیرت کا گلدستہ بنا کر طاق نسیاں پر رکھ دیا۔
دوسرا غضب یہ ڈھایا کہ اپنے آپ کو ایک مذہبی اور قومی جتھے میں بدل کر محمدؐ کو محض اپنے قومی و مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی اور اس بین الاقوامی ہستی کے پیغام اور نمونۂ حیات کو گروہی اجارہ دار بنالیا۔ حالاں کہ آپؐ ساری انسانیت کے رہنما بن کر آئے اور ساری انسانیت کے لیے پیغام اور نمونہ لائے تھے۔ سیرت کو اس انداز سے پیش کرنے کی ضرورت تھی کہ انسانیت کا یہ ایک نمونہ ہے کہ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنے اور ابناے نوع کی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے اور مسائل کے گوناگوں خارزاروں سے نجات پاکر ایک پاکیزہ نظامِ زندگی حاصل کرسکتا ہے۔
نبی اکرمؐ کا پیغام اور اسوہ درحقیقت سورج کی روشنی اور بارش کے پانی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح کا فیضان عام تھا، لیکن اسے ہم نے اپنی نااہلی سے گروہی خول میں بند کر دیا۔ آج سقراط و افلاطون، ڈارون و میکیاولی، مارکس و فرائڈ اور آئن سٹائن سے تو ہر ملک و مذہب کے لوگ تھوڑا یا بہت استفادہ کرتے نظر آتے ہیں، اور ان میں سے کسی کے خلاف کسی گروہ میں اندھا تعصب کا رونا نہیں ہے، لیکن محمدؐ کے نوادرِ علم اور رہنمائی سے استفادہ کرنے میں بے شمار تعصبات حائل ہوجاتے ہیں۔ لوگ یوں سوچتے ہیں کہ: ’’محمدؐ تو مسلمانوں کے ہیں اور مسلمان ہم سے الگ اور ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ لہٰذا، مسلمانوں کے ہادی اور رہبر سے ہمارا کیا واسطہ!‘‘ افسوس ہے کہ اس تاثر کے پیدا ہونے اور غیر معمولی حد تک جا پہنچنے میں ہم مسلمانوں کے طرزِ عمل کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ خود ہم ہی ہیں کہ جنھوں نے اپنے قول اور عمل سے، محسنِ انسانیتؐ کی نہایت غلط نمایندگی کی ہے۔