رسائل ومسائل

313

دو وقت کی نمازوں کو ملا کر پڑھنا
سوال: ایسی پارٹیوں میں شرکت کی وجہ سے جو عام طور پر ظہر سے مغرب تک منائی جاتی ہیں، کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر ایک ساتھ ادا کریں؟
جواب: حنبلی مسلک کے لحاظ سے کسی بھی عْذر شرعی کی بنا پر دو وقت کی نمازوں، یعنی ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء کو یک جا کرکے ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہے۔ اس میں نمازیوں کے لیے یقینا آسانی ہے۔ روایتوں میں ہے کہ نبیؐ نے سفر اور بارش کے علاوہ بھی دو وقت کی نمازیں یکجا کرکے پڑھی ہیں۔ ابن عباسؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ نبیؐ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوں نے فرمایا کہ آپؐ کی اْمت کو تنگی اور مشکلات پیش نہ آئیں۔ یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔
اس قسم کی روایتوں کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر واقعی کسی قسم کی پریشانی ہو تو دو وقت کی نمازیں ملا کر پڑھی جاسکتی ہیں۔ بہ شرطے کہ یہ عادت نہ بن جائے کہ ہر دو تین دن کے بعد نمازیں ملاکر پڑھی جائیں۔ واقعی عْذر کی مثال یہ ہے کہ ایک سپاہی ہے جس کی ڈیوٹی مغرب سے پہلے عشاء کے بعد تک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ وہ چاہے تو مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ یا ایک ڈاکٹر ہے جو دیر تک آپریشن میں مصروف رہتا ہے وہ چاہے تو دو نمازیں ملا کر پڑھ سکتا ہے۔
لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پارٹیوں میں شرکت کرنا کوئی عْذر واقعی ہے۔ اگر وہ واقعی سچا مسلمان ہے تو پارٹیوں کے درمیان بھی نماز ادا کرسکتا ہے۔ اس میں شرمانے اور جھجکنے کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ اسے علی الاعلان پارٹیوں کے دوران نماز ادا کرنی چاہیے تاکہ دوسرے بھی نصیحت حاصل کریں۔
(ڈاکٹر یوسف القرضاوی)
٭…٭…٭
قضا نمازیں
سوال: کیا قضا نمازوں کا لوٹانا ضروری ہے؟ جواہر الحدیث (جلد3، ص 272) میں تحریر ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’یاد رکھو! نیند میں تفریط نہیں ہوتی۔ تفریط تو یہ ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک نماز نہ پڑھے جب تک دوسری نماز کا وقت نہ آجائے۔ آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ جان بوجھ کر نماز کی قضا لازمی ہے۔ چند احباب کا خیال ہے کہ اس کے لیے توبہ اور استغفار کافی ہے‘‘۔
جواب : اللہ تعالیٰ نے جو احکام فرض فرمائے ہیں ان کے ساقط ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں، دوسری یہ کہ انسان ان کو ادا کرے۔ معافی کا تو اس دنیا میں تصور نہیں ہے کیوں کہ نبیؐ تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اور وحی کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ اب صرف دوسری صورت باقی ہے۔ البتہ اگر جان بوجھ کر نماز قضا کی ہو تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ ادا کرنے کے باوجود آدمی کو مطمئن ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ محض استغفار کافی ہے، جرم کو ہلکا کردیتا ہے۔ اس طرح تو ایک آدمی جان بوجھ کر نمازیں قضا کرے گا، قضا نماز بھی ادا نہ کرے گا اور چند دن بعد استغفار بھی چھوڑ دے گا۔ (مولانا عبدالمالک)
٭…٭…٭
ظہر کی سنتیں چھوڑنے والا امام
سوال: کیا امام کے لیے ضروری ہے کہ ظہر کی نماز سے پہلے وہ چار سنتیں پڑھے؟
جواب: سنتیں چھوڑنے والے امام کی امامت جائز ہے۔ وہ سنتیں بعد میں ادا کر لے۔ چاہے ظہر کی سنتیں ہوں یا کسی اور نماز کی سنتیں ہوں۔ البتہ سْستی اور چھوڑ دینے کو عادت بنانا بڑی بْری بات ہے۔ اس پر شریعت میں عتاب آیا ہے۔ واللہ اعلم!
٭…٭…٭
دینی کتب کی تقسیم قرضِ حسن
سوال: قلمی و زبانی اشاعت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو رواج دینے اور عام کرنے کے لیے ذاتی سطح پر اور اجتماعی طور پر عملی جدوجہد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کارِخیر میں، کیا مالی طور پر دینی کتب خریدنا اور پھیلانا بھی اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا راہِ حق میں جہادکرنے کی تعریف میں؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟
جواب : دین کی اشاعت و تبلیغ، اور دین کی اقامت و غلبے کی کوششوں میں اپنی صلاحیت اور قوت کے مطابق جو بندئہ مومن ذہنی، فکری، جسمانی، مالی، کوشش و کاوش کرے گا، وہ راہِ حق میں بلاشبہہ جہاد ہی ہے۔ قلم سے بھی جہاد ہوتا ہے اور جان کھپا کر بھی اور جان دے کر بھی جہاد ہوتا ہے۔
اس وقت، جب کہ ہر طرف باطل کا غلبہ ہے، خدا کا دین مغلوب ہے، لوگ دین سے ناواقف بھی ہیں اور دین کے خلاف ہر طرح کی فکری اور عملی مخالف کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ ایسے حالات میں جس بندے کو جو پونجی میسر ہے، خواہ وہ مال ہو یا صلاحیتیں، زبان کی طاقت ہو یا قلم کی، بندہ جس طرح بھی دین کی اشاعت و اقامت میں لگے گا، ان شاء اللہ وہ سب کچھ جہاد میں شمار ہوگا۔
دین کا تعارف کرانے، اور دین کو لوگوں میں مقبول بنانے اور اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے، جو شخص اپنا مال خرچ کرکے دینی کتب خرید کر تقسیم کرے اور لوگوں تک پہنچائے، وہ یقینا بارگاہِ الٰہی میں قرضِ حسن دے رہا ہے اور بلاشبہہ یہ اس دور میں ایک بہترین قرضِ حسن ہے، جس پر اللہ سے اْمیدیں وابستہ کرنا چاہییں۔ خالق ارض و سما ہم سب کو اپنی جان اور مال سے اپنی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
دورِ حاضر کتابوں کا بھی ہے۔ کتابوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی اقامت کے جو مواقع آج پیدا ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ طباعت اور اشاعت کی جو سہولتیں اور ذرائع اس وقت میسر ہیں، ان سے فائدہ اْٹھانا اور ان میں دین کی اشاعت اور دین کی اقامت کی خاطر اپنا دل پسند مال لگانا، یقینا اللہ کو قرضِ حسن دینا بھی ہے اور جہاد بالمال بھی۔ یقیناً اس مہم میں شرکت کی سعادت پر اللہ سے اجر وصلے کی توقع رکھنا چاہیے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)