بند کرو یہ شعر وشاعری

836

عمران خان ہی نہیں بیش تر حکمران یہی چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ عورتوں جیسا برتائو کیا جائے۔ ان سے وہی بات کی جائے جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ پروین شاکر نے بے نظیر بھٹو سے متعلق کہا تھا
عریضوں اور عرضیوں کے طوفانِ بے پناہ میں
گھری ہوئی ایک شہزادی
کبھی کبھی سوچتی تو ہوگی
کہ اپنی چھوٹی سی سلطنت کو
جو پہلے ہی دشمنوں کی آنکھوں میں
خار بن کر کھٹک رہی ہے
خود اپنی پیاری سپاہ سے
کس طرح بچائے
وزیراعظم عمران خان کی حکومت تو پیاری سپاہ سے محفوظ ہے لیکن عوام کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ اپنے گھروں کو اس حکومت سے کیسے بچائیں۔ کنٹینر پر عمران خان ایک نئے اور ابھرتے پاکستان کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا کرتے تھے کہ لوگوں کی اکثریت کو یقین آجاتا تھا کہ: ’’بنے گا نیا پاکستان‘‘ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد خان صاحب نے عوام کو اسی کنٹینر میں بند کرکے مہنگائی کے ریگستان میں جلنے، بھننے اور مرنے کے لیے اس طرح چھوڑ دیا ہے کہ عوام حیران ہیں کہ ان کے ساتھ کیا واردات ہوگئی ہے۔ حکومت اپنی ٹرم کے راستے ہی میں ہے لیکن عوام کی حالت سلیم کوثر کے اس شعر جیسی ہے:
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
عوام کو یہ احساس پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے، لیکن مہنگائی میں کمی کا جو سو فی صد بہتر طریقہ موجودہ حکومت نے اختیار کیا ہے اس کا جواب نہیں۔ مہنگائی میں کمی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مہنگائی کو بڑھادیا جائے۔ جس چیز کو سکیڑنا ہو اُسے پہلے بڑھانا پڑتا ہے۔ اور پھر یہ تسلی کہ پاکستان میں قیمتیں اب بھی پڑوسی ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔ جب بھی کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے ہم کسی بھی پڑوسی ملک سے اس کا تقابل کر لیتے ہیں اور اللہ کا شکر اداکرتے ہیں۔ رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے یہ حکومت بنائی۔ قیمتوں میں اضافے کا ایک فائدہ اور بھی ہوا ہے:
مہنگائی راہ راست پہ لے آئی کھینچ کر
بچتی نہیں رقم بری عادات کے لیے
ایوب خان کی حکومت کے بارے میںکہا جاتا تھا کہ ایوب خان کا عشرہ ترقی اور ملک میں چینی دونوں ایک ساتھ ختم ہوئے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے خان صاحب ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے سے گریزاں ہیں۔
میر تقی میر اپنے سمیت پونے تین شاعروں کو شاعر تسلیم کرتے تھے۔ منیر نیازی اپنے سوا کسی کو شاعر نہیں مانتے تھے۔ قتیل شفائی کو وہ فلمی شاعر کہا کرتے تھے۔ احمد ندیم قاسمی کو نثر نگار کہا کرتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان حکمرانوں کے منیر نیازی ہیں۔ وہ اپنے سوا کسی کو حکمران سمجھتے ہیں اور نہ برسر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ منیر نیازی مشاعروں میں دیر سے آنے کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ٹولہ منافقین میں میرا دم گھٹتا ہے۔ حکمرانوں کا معاملہ دیگر ہے ان کا دل ہی ٹولہ منافقین اور خوشامدیوں میں لگتا ہے۔ خوشامد کے وہ اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ ہلکی سی تنقید تو کجا ایک دو مصرعوں کی تاب بھی نہیںلا پاتے۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ دنوں تاجکستان میں بزنس کنونشن میں شریک تھے کہ اچانک ایک شخص نے شعروشاعری شروع کردی۔ اس شخص نے قابل اجمیری کے اشعار پڑھے کہ پاکستان کہہ رہا ہے۔
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
یہاں تک تو اسٹیج پر بیٹھے پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے مشیر مسکراتے رہے۔ مگر پھر جب انہوں نے ایک شعر عمران خان کے لیے سنایا تو چہرے کی رونقیں مانند پڑنے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمران صاحب کے لیے ایک آخری شعر ہے۔ اتنے ظالم نہ بنو۔ عمران بھائی آپ کے لیے۔ آپ تو اب ایک قیدی ہوگئے ہیں۔ جب کنٹینر پر تھے تو زبردست تھے۔ اب تو پتا نہیں کن کے چکروں میں آپ آگئے ہیں۔ تو شاعرکہتا ہے ’’اتنے ظالم نہ بنو۔ کچھ تو مروت سیکھو‘‘ بات پہلے مصرع پر ہی تھی کہ خان صاحب کا صبر جواب دے گیا۔ ان کے اندر سے آواز آئی ’’بند کرو یہ شعر وشاعری‘‘ لیکن بظاہر انہوں نے یہ کہا ’’بزنس کی باتیں کریں، شعر و شاعری بعد میں ہوتی رہے گی ان شا اللہ‘‘۔
نہیں سننا کسی نے شعر کوئی
یہاں پر جی حضوری چل رہی ہے
تاجکستان میں کیا یہاں تو ہرجگہ اور ہرکوئی جی حضوری میں لگا ہوا ہے۔ صدر مملکت فرماتے ہیں ’’دنیا عمران خان کے سیاسی تدبر پر ان کی شاگردی اور مریدی اختیار کرے‘‘ شہباز گل فرماتے ہیں ’’عمران خان جس مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ سونا بن جاتی ہے‘‘۔ ایسے بے مغز فقرے، حقیقت جن سے کوسوں دور ہو نالائق اور نااہل حکمرانوں کو خوش آتی ہے اس درجہ کہ ان کی مصاحبت کی پہلی شرط بن جاتی ہے۔ حکمران ریت کے محل تعمیر کرتے ہیں اور خوشامدی اسے شاہ جہاں کے تاج محل سے بڑھ کر حسین اور مضبوط ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے ہی خوشامدی تھے جو ایوب خان کو دائمی صدر رہنے کے مشورے دیا کرتے تھے، انہیں ایشیا کا ڈیگال کہا کرتے تھے، بھٹو کو فخر ایشیا، قائد عوام کہہ کہہ کر اس خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ ’’مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ روئے گا‘‘ ضیا الحق کو امیرالمو منین اور بے نظیر کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا کرتے تھے۔ جاتی امرا میں لگی قطاروں میں نواز شریف سے ہاتھ ملانا سعادت سمجھا جاتا تھا۔ رہے پرویز مشرف! ان کے بارے میں کہا گیا ایک قصیدہ ملا حظہ فرمائیے: غریبان وطن کا اب یہی منشور ہے۔۔ جو کہے پرویز مشرف وہ ہمیں منظور ہے۔۔ رہتی دنیا تک میرے مولا یہی ایکٹو رہے۔۔ زندگی بھر مسکراتا چیف ایگز یکٹو رہے۔۔ یہ وہ قاتل لوگ ہیں جو پہلے حکمران سے پیار کا ناٹک کرتے ہیں اس کی ہر ادا پر واہ کرتے اور سردھنتے ہیں بعد میں اسی حکمران کے کٹے ہوئے سر سے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ویسے ایک بات ہے تاجکستان میں عمران خان نے یہ خیال غلط ثابت کردیا کہ ’’مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر‘‘ مرد ناداں پر بھی کلام نرم ونازک کا اثر ہوتا ہے اس حدتک کہ وہ چیخ اٹھتا ہے ’’بند کرو یہ شعر وشاعری‘‘۔ عمران خان کو سنایا جانے والا پورا شعر کچھ یوں تھا:
اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو
تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں