علامہ اقبال اور افغانستان

1266

مفکر پاکستان اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال کو اگر بیسویں صدی عیسوی کا مجدد اعظم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ علامہ اقبال کے دل میں امت مسلمہ کی زبوں حالی کا جو درد پوشیدہ تھا اس کا واضح عکس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی پرسوز شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو جگانے کے جو جتن کیے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ عالم اسلام کے اتحاد اور بالادستی اور اسلام کی نشاط ثانیہ کے لیے کتنے فکرمند اور پرامید تھے۔ مصور پاکستان کی حیثیت سے ان کی ایک ایک بات حرف آخر ثابت ہو رہی ہے۔ انہوں نے جن نامساعد اور مایوس کن حالات میں نظریہ پاکستان پیش کیا تھا اس کی نظیر اور کوئی پیش نہیں کرسکتا ان کے فرمودات آج بھی ہمارے لیے بحیثیت ایک قوم مشعل راہ ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے ایک اہم اور قریبی پڑوسی ملک افغانستان کے بارے میں علامہ اقبال نے جو پیش گوئی کی تھی وہ آج سو سال بعد بھی سو فی صد درست ثابت ہو رہی ہے۔ اگر اس خطے اور خاص کر افغانستان کے حالات پر نگاہ دوڑائی جائے تو علامہ اقبال کے افغانستان سے متعلق کہے ہوئے یہ تاریخی اشعار: آسیا یک پیکر آب و گل است، ملت افغان در آن پیکر دل است۔ از فساد او فساد آسیا، ازکشاد او کشاد آسیا۔ علامہ اقبال ان اشعار میں فرماتے ہیںکہ براعظم ایشیا ایک جسم کے مانند ہے جس میں افغانستان کی مثال دل کی طرح ہے۔ اس دل یعنی افغانستان کا فساد بمعنی بدامنی وافرا تفری سے دوچار ہونا ایشیا کے فساد اور بے چینی کا سبب ہے اور اس کی کشادگی یعنی یہاں امن وسکون پورے بر اعظم ایشیا کی بھلائی وترقی کا باعث ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی فارسی اور اردو شاعری کے ذریعے عالم اسلام کے چاک گریبان اور اس کے رستے ہوئے زخموں کا جو کافی و شافی علاج تجویز فرمایا ہے اس کی طرف کوئی بھی دھیان دینے کے لیے تیار نہیں ہے جس سے یہ ہمارے یہ رستے زخم مندمل ہونے کے بجائے روز بروز مزید پیچیدہ ہو کر بگڑتے جا رہے ہیں۔ کاش ہمارے ارباب بست و کشاد مغرب سے اپنا رشتہ توڑ کر ایک بار پھر حکیم الامت سے رابطہ جوڑنے پر آمادہ ہو جائیں۔ امت مسلمہ اور خود ہم اہل پاکستان بتان رنگ و بو کے پیروکار بن کر جس ذلت ورسوائی کے شکار ہیں اس کا تماشا اگر ہم شام وعراق، یمن ولیبیا اور افغانستان کی تباہی وبربادی کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں تو دوسری جانب آج پاکستان میں علاقائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر بائیس کروڑ پاکستانیوں کو جس طرح نفرتوں کے خانوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے سے بد ظن کیا جارہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم اگر اپنی حقیقی منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں پھر سے علامہ اقبال کے تصورِ ملت میں گم ہونا ہوگا۔ اقبال کی تعلیمات کا ماخذ چونکہ قرآن وسنت ہیں اس لیے وہ جس تصورِ ملت کی بات کرتے ہیں دراصل یہ وہی تصور ہے جس کا ذکر ہمیں قرآن وحدیث میں ملتا ہے۔ مثلاً قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں اس لیے بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بیشک تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو اور اللہ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو‘‘۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ’’سارے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں لہٰذا جب جسم کے ایک عضو میں تکلیف ہوگی تو سارا جسم تکلیف محسوس کرے گا‘‘۔
علامہ اقبال نہ صرف تاریخ جہاں اور تاریخ اسلامی کا گہرا شعور رکھتے تھے بلکہ تاریخ ہند اسلامی کے فہم و ادراک میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کی اس حیثیت سے متاثر ہوکر ہی افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے آپ کو افغانستان کا نظام تعلیم وضع کرنے اور اس ضمن میں راہنمائی فراہم کرنے کی غرض سے دورۂ افغانستان کی دعوت دی تھی جس پر آپ نے 1933 میں علامہ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں آپ نے کابل میں سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیرالدین بابر، غزنی میں محمود غزنوی اور قندھار میں احمد شاہ ابدالی کے مزار پر حاضری دینے کے موقع پر اپنی شہرہ آفاق فارسی مثنوی بعنوان مسافر تخلیق کی تھی جس کو بعد میں پس چہ باید کرداے اقوام شرق کے ساتھ ملا کر 1934 میں ایک ساتھ شائع کردیا گیا تھا۔ علامہ اقبال کا یہ وہ فن پارہ ہے جس میں انہوں نے اگر ایک طرف ان عظیم مسلمان فاتحین کے کارناموں کا ذکرکرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے تو دوسری جانب اس مثنوی میں سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے زوال پر افسوس کرتے ہوئے ان کے اسباب کو اشعار کا جامہ پہنایا ہے۔
غزنوی، غوری، بابر اور ابدالی کے ادوار حکومت میں ہندوستان، پاکستان اور افغانستان چونکہ ایک سلطنت کا حصہ تھے اس لیے علامہ اقبال اس عظیم مسلم سلطنت کے زوال پر نہ صرف افسردہ اور آزردہ نظر آتے ہیں بلکہ تخیل میں وہ اس عظیم سلطنت کی عظمت رفتہ اور جاہ وجلال کی بحالی کے متمنی بھی نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اگر آج بھی بنظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان جو تاریخی، جغرافیائی، اقتصادی، سیاسی، تہذیبی، غرض ہر لحاظ سے یک جان دو قالب ہیں کے درمیان گہرے دوستانہ وبرادرانہ تعلقات استوار ہونے کے وسیع امکانات موجود ہیں جن کو علامہ اقبال کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہی عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔