مہنگائی میں اضافہ: ایشیائی بینک کی رپورٹ

291

ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستانی معیشت کے بارے میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھے گی۔ ملک میں گندم، چینی اور دیگر غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کا باعث بن سکتا ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے دیگر 2 وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہنگائی کے اسباب کے بارے میں متضاد نقطہ ٔ نظر کا اظہار کیا ہے۔ ایک تو انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتیں پوری دنیا میں بڑھی ہیں پاکستان کوئی انوکھا ملک نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کرنے کے باوجود کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کے ذریعے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے مقابلے میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کم اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ دعویٰ عذر لنگ ہے جو ہمیشہ سے برسراقتدار حکمرانوں نے کیا ہے، جب بھی اس بات کی شکایت کی گئی کہ قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کا جواز یہ کہہ کر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ پڑوسی ملک اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر پڑوسی ملکوں یا دنیا کے دیگر ملکوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو یہ عمل اس کا جواز نہیں بن سکتا کہ ہمارے ملک میں قیمتوں میں اضافہ جائز ہے۔ اس اعتبار سے موجود حکومت کی ناکامی زیادہ تشویش ناک اس لیے ہے کہ وہ تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگا کر آئی ہے۔ موجودہ حکومت کے ہر ناقد نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کسی بھی حکومت کے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں ہوتا کہ لمحوں میں حالات بہتر ہوجائیں۔ لیکن موجودہ حکومت کی کارکردگی ایسی ہے جس سے مستقبل کے بارے میں مایوسی گہری ہوتی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت روایتی سیاست دانوں پر مشتمل نہیں ہے جن کو صرف اپنے حلقے کے ترقیاتی کاموں سے دلچسپی ہوتی ہے، ان کے پاس قومی امور کے بارے میں کوئی وژن نہیں ہوتا، موجودہ حکومت نے زیادہ تر فیصلہ سازی کے لیے ماہرین اور ٹیکنوکریٹ حضرات کا انتخاب کیا ہے۔ جن میں وزیرخزانہ شوکت ترین بھی شامل ہیں لیکن ان سمیت پوری ٹیم عوام کے حالات کو بہتر بنانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کا اعتراف وزیراعظم، وزیر خزانہ اور دیگر وزرا بھی کررہے ہیں لیکن ان کی مہلت عمل ختم ہوتی جارہی ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ ایک طرف عالمی اور حکومتی اداروں کی جاری کردہ رپورٹیں معاشی استحکام کے اشارے دے رہی ہیں۔ دوسری طرف قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے، کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا عذاب کردیا ہے۔ ذرائع آمدنی میں اضافے کے اسباب کہیں سے نظر نہیں آرہے۔ حالات میں بہتری کے دعوے سے اٹھایا جانے والا ہر قدم حالات کو مزید ابتر کررہا ہے۔ وزیر خزانہ جو پیشے کے اعتبار سے ایک ساہوکار بینکر ہیں، انہوں نے اس بات کو تو تسلیم کرلیا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا سبب آئی ایم ایف پروگرام ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ ان کو یہ بتانا چاہیے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے کیسے نکلا جائے۔ ایک بینکر ہونے کی حیثیت سے ان کا فرض تھا کہ وہ روپے کی قیمت مستحکم رکھیں جو مہنگائی میں تیز رفتار اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے، لیکن وہ اور ان کی حکومت ڈالر کی بڑھتی اڑان کو روکنے میں بُری طرح ناکام ہے۔ اس کے لیے جو حالات و واقعات بیان کیے جاتے ہیں وہ عذر لنگ ہے۔ کسی بھی حکومت کا سب سے اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے، وزیر خزانہ نے قیمتوں میں اضافے کا ایک عذر لنک مڈل مین کی موجودگی کو قرار دیا ہے، حالاں کہ قیمتوں میں اضافے کا اصل سبب اجارہ داری ہے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ناقدین بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ ملک پر استحصالی مافیا کا راج ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال چینی اور گندم اسکینڈل ہے، سرمائے کے ارتکاز نے مفاد پرست طبقات کو وہ قوت عطا کی ہے جس کی وجہ سے معیشت و تجارت میں اجارہ داری قائم ہوگئی ہے۔ یہ اجارہ داری مافیائوں کے طاقتور ہونے کا سبب ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اُڑان قیمتوں میں اضافے کا مرکزی سبب ہے جس کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔ ان چاروں شعبوں میں نرخوں میں اضافے کا حکم آئی ایم ایف کے لیے گئے قرضوں سے منسلک ہے۔ اس لیے وزیر خزانہ کی یہ بات درست ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا سبب آئی ایم ایف پروگرام ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا اصل ہدف پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے۔ تاکہ امریکا اور عالمی قوتوں کو کوئی حکومت ’’ناں‘‘ کہنے کی جرأت نہ کرسکے جب وہ تسلیم کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام مہنگائی کا سبب ہے تو انہیں یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے گریز کرنا چاہیے کہ پاکستان میں قیمتیں دنیا سے کم ہیں ۔