عظیم سرور: باکمال براڈ کاسٹر کا سفر زندگی تمام ہوا

334

یادوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایک باعلم ہمدرد انسان شائستگی اور بردباری کا مجسم پیکر، بناوٹ، تصنع اور دکھاوے سے کوسوں دور ایک سچے اور کھرے انسان جنہوں نے ایک اچھی اور کامیاب زندگی گزاری وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ یہ ان کی اہلیت، قابلیت، آگاہی اور مردم شناسی کا کرشمہ تھا کہ ان کے گرد نوجوان صحافیوں، آواز کا جادو جگانے والوں، اسکرپٹ فارمیشن اور وائس ڈیلیوری کا اسلوب سیکھنے والوں کا ایک جمگھٹا رہتا تھا۔ کسر نفسی سے کام لینے کا انوکھا انداز۔ صاحب رائے، صاحب سخن اور صاحب فن سبھی ان کے محفل کی جان تھے ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ عظیم سرور سے میری پہلی ملاقات لائٹ ہاؤس کے سامنے منیر حسین صاحب کے اخبار وطن کے دفتر میں ہوئی۔ منیر صاحب سے عزت و احترام اور محبت والا رشتہ تھا۔ مجھے یاد ہے انہوں نے بڑے پر جوش انداز میں انتہائی خوبصورت انداز سے مرصح جملوں میں ان سے متعارف کرایا تھا۔ پھر یہ ملاقات کیا تھی؟ ارادت اور احترام کے سارے رشتے جڑتے چلے گئے۔ بھائیوں جیسے پیارے دوست نادر شاہ عادل بھی ان دنوں منیر صاحب کے دفتر میں بیٹھا کرتے تھے۔ عظیم سرور اور ان کی خوبیوں اور خصوصیات میں بڑی یکسانیت تھی۔ شرفت، رکھ رکھاؤ، محبت اور پیار سے ملنا اور سب سے بڑی ملتی جلتی وصف شاگردوں کی بھر مار تھی۔ اس وقت آپ مجھے اسپورٹس اور شوبز کا کوئی رپورٹر نہیں بتا سکتے جن سے ان دونوں صاحبان کا تعظیم اور محبت کا رشتہ نہ ہو۔ یہ دونوں ہماری اسپورٹس اور شوبز شعبے میں نیوکلیس کا درجہ رکھتے تھے۔ عالیہ رشید، عبدالرشید شکور اور ماجد بھٹی جیسے شہرت یافتہ اور ہونہار رپورٹرز، قلم کار اور اینکرز کے وہ کولمبس تھے۔
عظیم سرورنے آنکھیں موند لیں اور نادر شاہ عادل نے خود کو روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹوریل پیج کے احاطہ میں جکڑ لیا۔ دعا ہے شاہ صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ اسپورٹس رپورٹنگ میں اگر ہم عبدالوحید حسینی کو یاد نہ کریں تو نا انصافی ہو گی۔ رپورٹنگ کسی بھی شعبے کی بھی ہو حسینی صاحب کی کاپی رائٹنگ کی مہارت ایسی کہ کوئی ایڈیٹر قلم نہ لگا سکے اورمیں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اردو نیوز کاپی رائٹنگ میں ایسے ہی بلند پایہ تھے جیسے انگریزی میں برادرم شاہین صہبائی باکمال ہیں۔ پھر خوش خطی ایسی کہ شرط لگائی جاسکتی ہے کہ انہوں نے بچپن میں تختی ضرور لکھی ہو گی۔ اس کی گواہی نیوز میں ہمارے استاد محترم ہمایوں عزیز اور عارف الحق عارف دیں گے۔ عظیم سرور کو یاد کرتے ہوئے بہت سے قابل قدر اور محترم دوست بھی یاد آگئے۔
عظیم بھائی آپ کی کیا تعریف کریں آپ کی شرافت، صلاحیت، فرشتہ صفت خصلت اور دوستی نبھانے میں ہر کوئی آپ کے گن گاتے تھا۔ آپ کی خود اعتمادی پر سچ پوچھیں تو کبھی کبھی مجھے رشک آتا تھا۔ اس ماحول میں جہاں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے آپ سچ مچ اس خود غرض معاشرے میں انگوٹھی کے اس ہیرے کے مانند تھے۔ جو ہر دور میں جگمگاتا رہا۔ آپ کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ عظیم سرور ایک تخلیقی انسان تھے۔ محترم ضیا شاہد کی طرح نت نئے آئیڈیاز نئی نئی اختراع کروٹ لیتی اور چٹکیاں بھرتی باتیں یہ عظیم سرور کا اجلا چہرہ تھا۔ کبھی کبھی جب وہ خاموش سنجیدہ بے حد متین اور اداس دکھائی دیتے۔ تو ان سے وجہ دریافت کرنے پر پتا چلتا کہ کسی کا دکھ دیکھ کر یا سن کر ان کے وجود میں افسردگی اتر آئی ہے۔ مطالعہ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ کبھی تبصرے کے لیے نئی کتابیں آتیں اور میں بعد میں انہیں پیش کرتا تو بڑی سنجیدگی سے کہتے ’’ہم نے تمہاری محبت قبول کر لی‘‘۔ آرٹس کونسل یا ریڈیو پاکستان میں ان سے عموماً اس وقت ملاقات ہوتی جب شام دھیرے دھیرے رات کی تاریکیوں میں گم ہونے والی ہوتی تھی۔ انہیں لطیفے بہت یاد تھے کبھی کبھی سنا کر ہنساتے لیکن خود پر سنجیدگی طاری رہتی وجہ پوچھتے تو کہتے تم لوگ خوش ہو رہے ہو یہ کوئی خوشی سے کم بات ہے۔
روزنامہ جنگ میں بڑے خوبصور ت کالم لکھے۔ بے شمار موضوعات ہر تحریر میں خبریت اور نثر کا چسکا عنوان با معنی ہوتا۔ جب کبھی ان کی کسی کالم کی تعریف کرتے تو انہیں بے اختیار مرحوم ممتاز مفتی یاد آجاتے۔ جو اکثر کہا کرتے تھے’’لکھنا ایک کام ہے اور دوسرے تک پہنچانا دوسرا کام‘‘ میں لکھ سکتا ہوں لیکن دوسروں تک پہنچا نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ کام خدا نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے وہ جس لفظ کو چاہے سینوں سے پار کر دے اور جس کتاب کو چاہے ردی کی دکان پر ذلیل و خوار کر دے۔
عظیم سرور کی آواز اللہ تعالیٰ کی وہ عنایت تھی جس نے ریڈیو پر بہت پہلے سب کو ان کی طرف متوجہ کر دیا۔ وہ سچ مچ ایک زندہ شخص تھے اور ان کی آواز کے جادو نے ان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیے۔ آواز کے اتار چڑھاؤ، اندازجذبات اور احساسات سب کچھ اس طرح سمویاہوا تھا کہ وہ سننے والوں کے ذہنوں کو اس منظر میں غوطے کھانے پر مجبور کر دیتے تھے۔ نجانے یہ آرٹ انہوں نے کتنے لوگوں کو سکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نے دلوں پر اثر کرنے والی آواز بہترین تکلم اور بے پایاں علم سے نوازا تھا۔ عموماً کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ نا چیز کو جوکچھ دے دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کے لیے کسی دوسرے معجزے کی ضرورت نہیں رہتی۔ میں ان سے کہتا تھا عظیم بھائی امیتابھ بچن آج جس مقام پر ہے میرے خیال سے 60فی صد ان کی فنی صلاحیتوں کا کمال ہے تو 40فی صد ان کی آواز کا جادو ہے۔ اداکار محمد علی کی آواز کا ڈنکا بج رہا تھا۔ محمد علی اور مصطفی قریشی سمیت سیکڑوں فنکاروں کو آواز کی اہمیت اور اس کے جادو کا ہنر سکھانے والے محترم زیڈ اے بخاری عموماً کہا کرتے تھے آواز آپ کا پہلا تعارف ہوتا ہے جس کا جادو سب کو آپ کا گرویدہ بنا دیتا ہے۔ اس لیے ریڈیو پاکستان حیدر آباد اسٹیشن ایسے ہونہار فنکاروں کے لیے ایک مدت تک نرسری کی حیثیت رکھتا تھا۔ کیونکہ وہاں محترم زیڈ اے بخاری موجود ہوتے تھے۔ آواز کسی کے ذہن پر کتنا جادوئی اثر دکھاتی ہے اس کا تجربہ میں نے خود اپنے اسکول اور کالج کے زمانے میں محسوس کیا۔ اس وقت میرے لیے محترم رضا علی عابدی کی آواز جادو کا درجہ رکھتی تھی۔ بی بی سی کے پروگرام سیربین کو ریگولر سننے میں سب سے زیادہ تحریک عابدی صاحب کی آواز تھی۔ جس دن اس پروگرام میں ان کی آواز شامل نہیں ہوتی تھی وہ مجھے بے کیف لگتا تھا۔ جبکہ خبروں کی کوالٹی وہی ہوتی تھی۔ عظیم سرور کو اگر عارف الحق عارف بھائی نے آواز کا شہزادہ لکھا ہے تو 100فی صد درست ہے۔ عظیم سرور نے ریڈیو پاکستان کراچی سے سب سے پہلے صبح پاکستان کا آغاز کیا۔ پروگرام کیا تھا۔ نت نئی دلچسپیاں، اچھوتی باتیں، فکر انگیز گفتگو، لطیفے، کہانیاں اور خبروں پر تبصرے یوں سمجھ لیں بارہ مصالحے کی چاٹ تھی۔ جس طرح طارق عزیز پاکستان ٹی وی پر کوئز پروگراموں کے بانی تصور کیے جاتے ہیں ایک دبنگ اور شستہ لہجہ شعر و شاعری کے تڑکے، انعامات کا بٹوارہ اور علمی خزینوں اور معلومات کی بوچھاڑ اسی طرح صبح کے ابتدائی پروگرام کے بانی عظیم سرور کو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایک ہلکی پھلکی تفریح ذہنوں کو تر و تازہ کرنے والی مشق۔ اب وقت بدلا تو اس پروگرام کے تیور بھی بدل گئے۔ اب آپ کو درجنوں نجی ٹی وی چینلوں پر صبح کے پروگرام مختلف ناموں سے نئی نئی دلچسپیوں کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا عمل دخل بڑھا تو مقابلے کے رجحان میں بہت کچھ نیا ابھرا اور بہت کچھ گم ہو گیا لیکن عظیم سرور کو اپنی اس کاوش پر پورے نمبر ملنے چاہئیں۔
عظیم سرور کے جس کارنامے کے آگے ان کی تمام جادوئی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہے۔ وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قرآن پاک کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کو اپنی دلکش اور دل موہ لینے والی آواز میں پیش کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس قابل قدر کاوش کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار عنایتوں اور دنیاوی عزت و تعظیم سے نوازا تھا۔ میں نے جب پہلی بار تفہم القرآن کو پڑھنے کی کوشش کی تو قرآن کی روشنی میں اتنے عام فہم انداز میں اسے بتانے، سمجھانے اور ذہنوں اور دلوں کو مسخر کرنے پر مولانا کی اس کاوش پر یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ایک دنیا مولانا کی علمی صلاحیت، قابلیت اور ان کی مرتبے کی کیوں معترف ہے یوں تو مولانا کی دیگر سیکڑوں تصنیفات اور علمی شہہ پارے موجود ہیں ان میں وہ پروردگار عالم کے پیغام اور رسول اللہؐ کی اسوۂ حسنہ کو دنیا کے سامنے بہت عام فہم اور آسان انداز میں پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
جب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کی خبر آئی تو مجھے آج بھی یاد ہے تو یہ خبر سب سے پہلے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔ کیونکہ مولانا کے صاحبزادے نے سب سے پہلے ان کی وفات کی خبر جنگ کے چیف ایڈیٹر میر خلیل الرحمن کی امریکا میں رہائش پزیر صاحبزادی گل افشاں خلیل کو دی تھی اور انہیں بتا یا تھا کہ وہ اپنے والد کو بتا دیں کہ مولانا اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ میرے ذہن میں اس وقت یہ بات لپکی تھی کہ جب مولانا بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے تو فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور نبی آخر الزماںؐ انہیں گلے لگا لیں گے۔ آج جب میں نے عظیم سرور کی وفات کی خبر سنی تو میرے ذہن میں پھر یہ بات آئی کہ ایسی شاندار دینی خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا درجہ بلند کر دیا ہو گا۔ اور انہیں اللہ کے حبیبؐ کی شفاعت بھی نصیب ہو گی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس شاندار انسان اور ہم سب کے پیارے دوست کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمائے۔