کرکٹ سیریز کی منسوخی کے اصل حقائق؟

329

وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے دورئہ پاکستان کی منسوخی سے متعلق حقائق سامنے لانے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق جسے کئی خبر رساں اداروں نے نشر کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس بارے میں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے سینئر ارکان سے مشاورت بھی کی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حکومت نے دونوں ٹیموں کے دوروں کی منسوخ میں بیرونی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں جعلی اکائونٹس سے ای میل اور جعلی خبریں جاری کرنے والے لوگوں سمیت تمام حقائق سامنے لائے جائیں گے۔ اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کی طرف سے یک طرفہ طور پر کرکٹ ٹیم کا دورہ منسوخ کرنے پر حکومت پاکستان نے معاملہ سفارتی سطح پر اٹھادیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کی طرف سے نیوزی لینڈ کی حکومت کو احتجاجی مراسلہ بھجوادایا گیا ہے جس میں دورے کی منسوخی سے متعلق وضاحت طلب کی گئی ہے۔ حکومت پاکستان نے احتجاجی مراسلے میں نیوزی لینڈ کی حکومت پر زور دیا ہے کہ تھریٹ الرٹ کی نوعیت کے حوالے سے تمام تفصیلات دی جائیں۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے اچانک پاکستان کو غیر محفوظ قرار دے کر کرکٹ ٹیم کو واپس بلانے کے فیصلے پر حکومتی اور عوامی سطح پر صدمے اور تشویش کی کیفیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت کے ذمے داران اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ میچ غیر محفوظ ہے۔ جبکہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو اعلیٰ ترین سطح پر حفاظتی اقدامات فراہم کیے گئے تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا فوری ردعمل یہ تھا کہ دستانے پہنے ہوئے ہاتھ اس سازش میں ملوث ہیں جو پاکستان کے خلاف رچائی گئی ہے۔ نیوزی لینڈ کے بعد برطانیہ کی جانب سے بھی کرکٹ ٹیم کے دورے کی منسوخی اس شبے کو تقویت دی ہے کہ افغانستان میں انقلاب کے بعد نئی جنگ شروع ہوگئی ہے اور اس کا ہدف پاکستان ہے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی پاکستان کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی بین الاقوامی سیاحت، کھیلوں اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے محفوظ ہے۔ وزیراعظم، آرمی چیف اور وزیر داخلہ سمیت کوئی بھی ذمے دار حکومتی فرد نیوزی لینڈ کی حکومت کے اس موقف کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کا انعقاد غیر محفوظ ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کرکٹ سیریز کی منسوخی کے واقعے کو عالمی سازش قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا ہے کہ کوئی سیکورٹی تھریٹ نہیں تھا۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیمیں اس لیے نہیں آئیں کہ پاکستان نے امریکا کو فوجی اڈے دینے سے انکار کیا تھا، دنیا کو ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کہیں تو اس کے نتائج کا سامنا تو کرنا ہوگا، کرکٹ سیریز کی منسوخی کے خلاف قانونی چارہ جوئی سمیت تمام آپشن استعمال کریں گے۔ قوم کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہے‘‘ انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ کی نظر میں کرکٹ سیریز کی منسوخی کا تعلق تبدیل شدہ عالمی صورت حال سے ہے جس میں امریکا کو افغانستان کی جنگ کے انجام کے حوالے سے زبردست سُبکی اٹھانی پڑی ہے۔ اس عرصے میں وزیراعظم عمران خان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دے رہے ہیں اور یہ تاثر سامنے آرہا ہے کہ حکومت پاکستان کی پالیسی میں ایک سو اسی درجے کا یوٹرن آگیا ہے اور حکومت پاکستان نے عالمی قوتوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے اور انکار کی روش کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے انکار کا اعلان کیا، لیکن بعد میں زیادہ بدترین شرائط پر نہ صرف نئے قرضے لیے بلکہ آئی ایم ایف کو مداخلت کی زیادہ اجازت بھی دے دی۔ افغانستان کے حوالے سے بھی وزیراعظم اور ان کی حکومت بیانات کی حد تک آزادی کا تاثر دے رہی ہے لیکن عملی اقدام اس حوالے سے کوئی نظر نہیں آرہا۔ سب سے پہلا مسئلہ افغانستان کے فاتح طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا ہے۔ چونکہ ابھی تک امریکا نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور تسلیم کرنے سے پہلے غیر ضروری شرائط عائد کی جارہی ہیں تاکہ افغان حکومت پر دبائو برقرار رکھا جائے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ پیش قدمی کی جائے اور طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ لیکن حکومت پاکستان بھی امریکا اور عالمی قوتوں کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہے کہ وہ تسلیم کریں تو پاکستان بھی نئی افغان حکومت کو تسلیم کرے گا۔ اس تناظر میں کیا ہم یقین کرلیں کہ حکومت پاکستان نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کی اچانک منسوخی کے اصل حقائق سامنے لے آئے گی۔