وزیر خزانہ ڈالر پر بڑے صاحب کی زبان بول رہے ہیں، جسٹس وجیہ

249

کراچی: عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین ڈالر کی قیمت پر بڑے صاحب کی زبان بول رہے ہیں۔ شوکت ترین کے مطابق روپیہ اور ڈالر کی قیمت حقیقت کے قریب تر ہے، یہی کبھی بڑے صاحب کا منتر تھا۔ پیٹرول کی درآمد زرمبادلہ کا بڑا حصہ ہضم کر جاتی ہے، مگر استعمال میں مناسبت لانے کیلئے موٹر گاڑیوں کی بے تحاشہ رسد پر کوئی تردد نہیں۔ زرعی اور دیگر اشیا کی مناسب پیداوار سے ہی قیمتوں میں استحکام لایا جاسکتا ہے، اس طرف کسی قسم کی بھی محرکات مہیا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین تین ماہ کے مسلسل بین الاقوامی مالی خسارے کے بعد ایکشن میں آگئے ہیں۔ عام لوگ اتحاد جو عرصہ دراز سے متنبہ کر رہا ہے کہ درآمدات کے بل کی بلا تاخیر چھانٹی ہونی چاہیئے، جب پانی سر سے تجاوز کر گیا، تب ان کی سمجھ میں آیا۔ اب اشیائے تعیش پر درآمدی محصول بڑھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پچھلے ادوار میں اس طرح کی ڈیوٹیز بڑھانے سے پہلے حکمران کم قیمت پر اسکریپ وغیرہ خود درآمد کرکے ناجائز منافع کما لیا کرتے تھے۔ اس مرتبہ اضافی محصول لگانے سے پہلے اسی نوعیت کی دعوت عام دے دی گئی ہے۔ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ایسے بیان صرف ڈیوٹی بڑھانے کے بعد دیئے جاتے ہیں تاکہ معلومات کا غلط استعمال نہ ہوسکے۔

دوسری طرف، مہنگائی سے سراسر انکار یہ کہہ کر کردیا گیا ہے کہ موجودہ زرمبادلہ کی قیمت کے تناظر میں پاکستان پھر بھی سستا ملک ہے۔ کیا خوب، پہلے روپے کی قیمت خرید گرا کر عوام الناس پر مہنگائی کا بم گراؤ اور پھر اس گری ہوئی شرح تبادلہ کا سہارا لر کر دعویٰ کرو کہ اشیائے صرف پاکستان میں اب بھی بیرون ملک معیار سے کم تر ہیں۔ اتنا ہی نہیں، یہ بھی کہا گیا کہ روپے کی ڈالر کے تناظر میں قیمت پر اب بھی اگر دو روپے کی چھوٹ دے دی تو حقیقی قیمت کے نزدیک ہی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ کبھی بڑے صاحب مشرق بعید کے دورہ پر تھے تو ارشاد فرمایا کہ پاک روپیہ 170 روپے ڈالر کے لگ بھگ ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیر موصوف نے قیمتیں کم کرنے اور اشیائے خورد پر سبسڈی (رعایت) دینے کی بات کی ہے۔ اگر قیمتیں معیشت کے حساب سے متوازن ہیں تو ایسا کیوں؟ کون نہیں جانتا کہ قیمتیں متوازن کرنے کا گر اشیا کی پیداوار و رسد کو طلب سے ہم آہنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں، جس سمت مکمل خاموشی ہے۔

اس حقیقت سے بھی کون انکار کرسکتا ہے کہ پیٹرول کی مصنوعات میں اضافہ درآمدی بل کا ایک بڑا جز ہے، پھر بھی ملکی موٹر گاڑیوں کی پیداوار اور درآمد میں دھڑلے سے اضافہ کوئی بات ہی نہیں! جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کیلئے بسیں تک ناپید ہیں۔ اور جو درآمد ہوتی ہیں، ان کی پیداوار کا تو کیا ہی کہنا، وہ کھڑے کھڑے گل سڑ جاتی ہیں۔ اب بھی کراچی کی بسوں کے ایک قبرستان میں 19 بسیں فلیٹ ٹائر پر کھڑی ہیں۔ مگر کوئی استعمال کرنے والا نہیں۔