وہ میرے عہد کے قد آوروں میں سب سے بلند

811

یہ چھٹی جماعت کی بات ہے جب میں گورنمنٹ مسلم ماڈل ہائی اسکول، لاہور کا طالب علم تھا، مجھے تعین کے ساتھ اخبار اور دن کا یاد نہیں پڑتا، مگر خبر غیر معمولی ضرور تھی، اخبار کے upper half پر سیاہ ماتمی رنگ غالب تھا اور reverse میں یہ سرخی نمایاں تھی۔
موت العالم … موت العالم (عالم کی موت ایک جہان کی موت ہوتی ہے)
یہ سید ابوالاعلی مودودی سے ایک نوخیز ذہن کا پہلا تعارف تھا جسے تعارف، تعلق نسبت اور عقیدت بننے میں ابھی نصف دہائی مزید درکار تھی۔ اردو کے کہنہ مشق مگر قدرے غیر معروف شاعر سید انوار ظہوری نے نجانے کس کیف کے عالم میں حضور ختمی المرتبت اور ان کے جانثار ساتھیوں کا تذکرہ یوں کیا ہے
ہم نے کس دور میں کھولی ہیں ظہوری آنکھیں
ان کو دیکھا، نہ انہیں دیکھنے والا دیکھا
بلاشبہ یہ حسرت تو اپنے عالم پائیدار میں جاکر ہی پوری ہوگی کہ انسانیت کے کامل نمونوں سے شرف ملاقات ہو مگر ہر عہد کے زندہ انسانوں کا تذکرہ کرنے والے ابھی زندہ ہیں، جو سیدنا مسیح کے بقول کہتے تھے۔ اے مچھلیوں کے پکڑنے والو، آو! میں تمہیں انسانوں کا پکڑنے والا بنا دوں یا پھر قاہرہ کی پرپیچ گلیوں اور پر رونق قہوہ خانوں میں سرگرداں حسن البنا کا یہ کہنا کہ ’’مجھے کتابیں نہیں انسانوں کو تصنیف کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے‘‘۔ محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کو دور سے دیکھنے والے بھی شاید ہی انگلیوں پر گنے جائیں مگر ابھی وہ زندہ وجود اور خوبصورت نفوس موجود ہیں جنہوں نے براہ راست سید ابوالاعلی مودودیؒ سے فیض حاصل کیا۔ ان سے ملکر معلوم ہوتا ہے کہ بڑا آدمی اور بڑا پن کس چیز کا نام ہے۔
سید ابوالاعلی مودودی کو اس دنیا سے گزر ے اگرچہ 40 سال بیت چکے ہیں مگر، باتیں ان کی یاد رہیں گی، دیر تلک سر دھنیے گا، کے مصداق جب بھی مولانا کا تذکرہ چھڑے تو ’’لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم‘‘ ہی عنوان ٹھیرے۔
کچھ عرصہ قبل اسلامی جمعیت طلبہ کے ترجمان رسالہ ’’ہم قدم‘‘ کے سید ابوالاعلی مودودی نمبر کی پزیرائی میں شرکت کا موقع ملا۔ حاضرین میں دو تین خوش نصیبوں کے سوا غالب اکثریت ان نوجوانوں کی تھی جن کے والدین نے بھی شاید مولانا محترم کو براہ راست نہ دیکھا ہو۔ میں اپنے آپ کو اتنا ’خوش قلم‘ نہیں پاتا کہ مولانا کے افکار و اثرات پر کوئی بات کرسکوں مگر میرے اردگرد مولانا کی وہ زندہ تصنیفات موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ بڑا آدمی، سچے الفاظ اور زندہ کردار کی اصطلاحات کن پر صادق آتی ہیں۔ مجیب الرحمن شامی ہوں کہ الطاف حسن قریشی، حفیظ اللہ نیازی ہوں کہ ہارون الرشید، محمد عبدالشکور ہوں کہ لیاقت بلوچ۔ تذکرہ ابوالاعلیٰ ہو تو نجانے کہاں سے آنکھوں میں چمک اور لہجے میں کھنک اُتر آتی ہے، میں نے مولانا کو ایک طالب علم کے طور پر پڑھا ہے، میں سمجھ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی کو براہ راست سننے اور دیکھنے والوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ مولانا محترم کی چند کتب ہی ہم انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے دوران پڑھ پائے، بھلا ہو اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماعی مطالعے اور اسٹڈی سرکلز کا جس نے ان کتب کی سدھ بدھ ہمارے اندر پیدا کی۔ شہادت حق، بنائو اور بگاڑ، زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت، سلامتی کا راستہ، تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں، جیسی مختصر تحریروں سے شروع ہونے والا سفر مجھے مقدمہ تفہیم القرآن، پردہ، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی، معاشیات اسلام، خلافت وملوکیت، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات جیسی مربوط، مستند اور مدلل کتب تک لے آیا۔ انہی دنوں یونیورسٹی کے ایک فاضل استاد کا کہا جانے والا یہ خوبصورت جملہ آج بھی میری سماعتوں میں محفوظ ہے کہ ’’عصر حاضر میں مولانا مودودی سے بہتر عقل کو کلمہ شاید ہی کسی نے پڑھایا ہو‘‘ مولانا کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے مرعوبیت اور انفعالیت کے دور میں اسلام کے جامع تصور کو روح عصر سے مطابقت (relevance) کا عنوان بنایا بلکہ یہ بھی طے کردیا کہ آنے والے ہر عہد اور مستقبل کے ہر زمانے کو اسلام کے چشمہ صافی سے سیرابی کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ایک ایسے عہد میں جب سوشلزم یہ دعویٰ کرتا کہ آسمان سے خدا اور زمیں سے سرمایہ داری کو نکال کر ہی دنیا امن پا سکتی ہے، انہوں نے اپنے راسخ ایمان اور معجزنما علم الکلام سے سوشلزم اور قومیت دونوں زور آور قوتوں کو لگا میں ڈالیں۔
مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ مولانا مودودی کی تحریروں کو میں نے جمعیت طلبہ سے فراغت کے بعد اس وقت زیادہ پڑھا اور سمجھا جب مجھے خود ان موضوعات پر سرکل کنڈکٹ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ یہ بالکل فطری بھی ہے کہ درس و تدریس کے عمل میں انسان زیادہ سیکھتا ہے۔ بڑے لوگوں کی تحریر کا یہ حسن ہوتا ہے کہ ہر بار جب آپ مطالعہ کرتے ہیں تو فہم وادراک کا کوئی نیا دریچہ وا ہونے لگتا ہے، ذہن کے افق پر نئی بجلی کوندتی ہے اور مسائل حیات کو حل کرنے کی کوئی نئی کلید میسر آتی ہے۔
سفر کی فراغت کے چند لمحات میسر آتے، مولانا سید ابوالاعلی مودودی سے اکتساب کرنے والوں کی خدمت میں کچھ جسارت کرنے کی ہمت موجود پاتا ہوں، بلاشبہ اس کے مخاطبین میں، میں خود بھی شامل ہوں۔
احمد جاوید صاحب کا یہ کہنا بہت خوب اور بر محل ہے کہ ’’اگر آپ کسی پر احسان کرنا چاہتے ہیں تو اسے سید مودودی سے روشناس کرادیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے البدر پبلی کیشنز، اسلامک پبلی کیشنز والے عبدالحفیظ احمد کی، انہوں نے چند سال قبل ’’سید مودودی پڑھیے۔ سید مودودی پڑھائیے‘‘ مہم شروع کی، ہمارے کاموں میں بڑا کام مولانا کو پڑھنا اور دوسروں کو ان کی فکر، لٹریچر تک رسائی دینا ہونا چاہیے۔ یہ کام ضابطے کی کارروائی سے کہیں بڑھ کر دل کی آمادگی اور احسان شناسی کے جذبہ سے ہو۔ مگر یہ اسی وقت ہوگا جب ہم خود سیدی محترم کو جانتے ہوں گے، جو ان کے لٹریچر کے بالاستیعاب مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں۔ ہماری نوجوان نسل، ملت کا سرمایہ اور امت کی نگہبان ہو سکتی ہے، اسی صورت میں کہ ان کے ذہن و دل مسلمان ہوں۔ فکری اور عملی کشمکش میں مولانا نے اپنے عہد کے نوجوان کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آج اسی نسل کو سب سے زیادہ مخاطب کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا نے اپنے وقت کی سب سے سہل زبان میں لکھا۔ معاصر مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والا عالم ہی نہیں، عامی بھی گواہی دے گا کہ مولانا مودودی، دور جدید میں دینی لٹریچر کو ادبیت، چاشنی، سلاست اور روانی بخشنے والے علما میں سب سے آگے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی نسل (جنریشن z) کے لیے یہ اردو زبان بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات کے مولانا چنداں ذمے دار نہیں، یہ ہماری تعلیم اور معاشرت کا المیہ، حالات کا جبر اور میڈیا کی یلغار ہے کہ ہم یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآنی عربی کے علاوہ ہر زبان چند سو سال بعد اپنی ہئیت بہت حد تک تبدیل کرلیتی ہے۔ ایک طرف تو ضرورت اردو زبان کی حفاظت، فروغ اور ترقی کی ہے، جس سے دوری میرے نزدیک اقبال، مودودی اور نسیم حجازی سے محرومی ہے۔ دوسری طرف مولانا مودودی کے لٹریچر کی قدرے آسان اور مختصر زبان (abridged version) میں فراہمی ہے۔
(جاری ہے)
وقاص جعفری
مغرب نے تو ارسطو سے لے کر شیکسپیئر تک اپنے سیکڑوں اور ہزاروں سال پرانے کلاسیکل لٹریچر کو اسکول کے طلبہ کے لیے قابل فہم اور readable بنادیا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ ہمارے دوست شاہد وارثی اور ان کی ٹیم مولانا مودودی کی علٰیحدہ علٰیحدہ کتب کے learning outcomes پر تحقیق کر رہی ہے جہاں ہر کتاب اور مولانا کے فہم دین کا ہر پہلو ایک مرکزی خیال، اس کے گرد اگر د ذیلی نکات کا ویب بناتا ہے، اللہ کرے یہ کام جلد تشنہ تکمیل ہو۔
ہم شکر گزار ہیں ان افراد اور تنظیمات کے جو مولانا مودودی کی فکر اور لٹریچر کو مختلف فارمیٹ پر منتقل کررہے ہیں، تاہم یہ سارا کام ایک مستقل جذبہ کے ساتھ ساتھ مربوط کاوش کا تقاضا کرتا ہے۔ مولانا کا لٹریچر دنیا کی کئی زبانوں میں دستیاب ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام اہم زبانوں (بالخصوص عربی، انگریزی) میں ابھی بھی بہت کام کیا جانا باقی ہے۔ آج کے دور میں برانڈنگ اور مارکیٹنگ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سطحی، مادی اور سفلی اشیا کو اس انڈسٹری نے انسانوں کی ضرورت بنادیا ہے، آج مذہبیات بالخصوص مولانا کے لٹریچر کو جدید، اچھوتے انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ فی زمانہ فکر کی گہرائی وگیرائی، ظاہری حسن کی بھی متقاضی ہوتی ہے۔
آج کے دور میں علم نے اپنی تحصیل کے لیے بے شمار راستے تخلیق کرلیے ہیں، ان راستوں کی بھی نجانے کتنی شکلیں ہیں سوشل میڈیا اور آئی ٹی نوع بہ نوع شکلیں اختیار کررہی ہے۔ پاکستان کی 50 فی صد نوجوان نسل، اول تو کسی عالم دین کو recognise ہی نہیں کرتی، دین سے تعلق رکھنے والوں میں 3 فی صد سے بھی کم مولانا مودودی کو identify کرتے ہیں۔ نئی نسل کے نزدیک استاد، عالم، اسکالر وہ ہے جو ان کی ٹچ اسکرین پر نمودار ہوسکے، جو ان کی ایک کال پر اپنے علم کا پندار لیے سبسکرائبر کے ذاتی چینل پر حاضر ہو۔ ٹوئٹر، فیس بک نے مطالعے کے محدود رجحان کو محدود تر کردیا ہے، انسٹاگرام نے تصویر کو ہزار الفاظ (a picture worth than thousand words) ہی نہیں بلکہ تمام لغت ہائے حجازی پر غالب کردیا ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب زبیر منصوری سورہ الکہف کو seven sleepers کے نام سے story telling کی تکنیک سے نئی نسل کو پڑھاتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق گوندل نے خود اس ضرورت کو جان کر Maulana Maudoodi Studies (MMS) کے نام سے طلبہ وطالبات اور جدید تعلیم یافتہ ذہن کو QUIZES اور Q&A کے ذریعہ خط وکتابت کورسز کی تشکیل۔ کے لیے کمر بستہ کردیا ان دائروں کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے، موبائل ایپلی کیشنز، گوگل سرچ ایبل آپشنز، پاور پوائنٹ پریزینٹیشنز، ای بکس حتی کہ موبائل گیمز وغیرہ۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ تعلیم کا جدید تصور، بہتر تدریس کی خاطر ابتدائی جماعتوں میں زبان (languages) سے لیکر ریاضی تک کے مضامین کو کمپیوٹر گیمز پر لے آیا ہے۔
سید مودودی کی فکر جامد اور ساکت نہیں، متحرک اور نمو پانے والی (organic) ہے۔ ایک طالب علم کے طور پر میں اس بات کا قائل ہوں کہ مولانا کی فکر سے سوچ بچار کے مزید سرچشمے پھوٹنے چاہییں۔ مولانا نے اسلامی کاز کی آبیاری کے لیے اسلاف سمیت رائج الوقت مناہج کے علی الرغم ایک مختلف راستہ اختیار کیا جس میں صحت مند تنقید (توصیف بھی) اور ردو اختیار کے تمام درکار آپشن کو بروئے کار لایا گیا۔ مولانا نے اسلاف کے صدیوں سے رائج طریقہ کار ( تحریر وتقریر/وعظ و تصنیف) سے آگے بڑھتے ہوئے دینی جدوجہد کے کچھ نئے سانچے (models & paradigm) اختیار کیے۔ کچھ نقادوں کے نزدیک یہ کہیں نیشنلزم اور کہیں سوشلزم سے اخذ کیے گئے تھے، حقیقت یہ ہے کہ ’’خذ ماصفا ودع ماکدر‘‘ کے اصول پر انہوں نے جدوجہد کی فکری تشکیل، انتظامی ڈھانچے اور حکمت عملی کی تراش خراش کے لیے تخلیقی اور موثر پیمانے اپنائے، جس میں حاضرو موجود سے مرعوبیت کا عنصر نہ ہونے کے برابر تھا۔ سید مودودی نے بیسویں صدی کے وسط میں وقت کی جدید ترین (most modern) اسلامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ اس تنظیم کی فکری بنیادیں اس قدر مضبوط تھیں کہ زمانہ کے نشیب و فراز کے باوجود پون صدی سے یہ تنظیم انہی بنیادوں پر کھڑی ہے، یہ توایک مثبت پہلو ہے۔ غورطلب امر یہ ہے کہ مولانا نے جس فتنہ اور سحر کو اس کے شایان شان جواب سے بکھیر کر رکھ دیا، وہ تہذیب اپنی ادارتی ساختیات، سماجیات، حرکیات اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے کہیں آگے جاچکی ہے۔ یقینا مغرب کے روحانی اضمحلال اور روزافزوں معاشی زوال کے لیے دور سے دلیل لانے کی ضرورت نہیں مگر کیا آنے والا کل ہمارا ہے، مسلمان ممالک سے ابھی اس خوشخبری کا امکان نہیں۔ اس تناظر میں وہ لوگ خو مولانا کی فکر سے متاثر ہیں، انہیں صرف سیاست نہیں بلکہ سماج، تعلیم، ابلاغ، ثقافت سمیت ہر دائرے میں روایتی ڈگر سے ہٹ کر اور پامال راستوں سے اوپر آٹھ کر سوچنا ہوگا۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی فکر اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے جماعت اسلامی جیسی منظم، متحرک اور مخلص تنظیم کا جامہ ملا۔ فکر سید کے تسلسل، اشاعت اور فروغ میں جماعت کا کلیدی کردار ہے۔ مگر یہ بھی سوچنے کا ایک دائرہ ہے کہ کہیں اس اونرشپ اور ملکیتی سوچ (possessiveness) نے عام معاشرے کو سید مودودی سے دور تو نہیں کردیا۔ ہم ایک پولارائزڈ معاشرے کے باسی ہیں جہاں لوگ لیبل اور برانڈ کو دیکھے، چکھے، برتے بغیر اپنی مخصوص رائے پر اصرار کرتے ہیں۔ جس معاشرے میں لوگ نماز کی ادائیگی اور بیکری مصنوعات کی خریداری تک، کسی ٹیگ کی بنیاد پر کریں، وہاں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ عقیدے، عمل اور سماج کی اصلاح کے کچھ کام نیوٹرل انداز میں کیے جاتے رہیں۔ اس رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس پر سوچا تو جائے کہ مولانا مودودی کو کم از کم اسلام کی نشات ثانیہ کے معماروں میں سب کے لیے محبوب کیسے بنایا جائے۔ اسلامی سیاست مولانا کی فکر کا امتیاز اور شہ سرخی ضرور ہے مگر عقیدہ، تعلیم، خاندان، معیشت، اور اصلاح معاشرہ کے ذیل میں مولانا کا کنٹری بیوشن بھی کم اہم نہیں۔ کچھ ادارے اور افراد اگر یک سو ہو کر اس کام پر بھی جت جائیں، تو بھی یہ قوم، تحریک اور سید مودودی کی سراسر خدمت ہی ہوگی، ہمیں بہرحال اس کی گنجائش نکالنی چاہیے۔