خلاف شریعت قانون سازی:خرابی کہاں ہے

639

آخری حصہ
اب آئیے سویلین حکومتوں کی طرف۔ کیا اس میں کسی کو شک ہے کہ آسیہ مسیح کی رہائی اسٹیبلشمنٹ، نواز شریف، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھی۔ فرانس کے سفیر کو نہ نکالنے پر بھی یہ سب ایک پیج پر ہیں۔ سود ختم نہ کرنے کے حوالے سے بھی ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے عمران خان ہوں یا نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف سب ہم خیال ہیں اور فیڈرل شریعت کورٹ سے یکساں درخواست گزار کہ اس کیس کو نہ سنا جائے۔ نواز شریف کی طرح عمران خان کے غریبوں کی بہبود کے منصوبے بھی سودی قرضوں پر استوار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا لیکن اب وہی پیپلز پارٹی ہے کہ سندھ میں اس کی صوبائی حکومت جبری تبدیلی مذہب کے نام پر غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے پر پابندی کابل پیش کررہی تھی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کا جہاں تک تعلق ہے ان کے دور میں انتخابی اصلاحات بل 2017 میں ترمیم کے ذریعے، کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت پر یقین کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کیا گیا۔ جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اگر کوئی شخص فارم میں لکھے حلف نامہ کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گواہ بنا کر اور قسم اُٹھا کر بحیثیت مسلمان اپنی شناخت کراتا ہے لیکن اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو آئین پاکستان کے تحت قانونی طور پر اس کا یہ عمل قابل گرفت ہے اور ایسا شخص عمر بھر کے لیے نااہل ہو سکتا ہے۔ اُسے سزا ہو سکتی ہے۔ اقرار نامہ محض ذاتی نوعیت کا ایک بیان ہے۔ اگر کسی شخص کا معاملہ اس کے اقرار نامہ کے برعکس ثابت ہو تو چونکہ اقرار کو حلف کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہٰذا وہ قابل مواخذہ نہیں ہوگا۔ قوم کے زبردست احتجاج اور سخت عوامی ردعمل کی وجہ سے حکومت کو ختم نبوت کے قانون کو سابقہ حالت میں بحال کرنا پڑا۔
عمران خان ریاست مدینہ کی طرح پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو ان کی حکومت کی قلیل مدت میں متعدد ایسے قوانین سامنے آئے ہیں جن میںکائنات کے خالق کی نافرمانی کی گئی ہے۔ خلاف شریعت قانون سازی میں عمران خان پرویز مشرف اور دوسرے حکمرانوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ وہ یہ سب کچھ ریاست مدینہ کے نام پر کررہے ہیں۔ ہندوستان میں تمام تر طاقت اور اقتدارکے باوجود انگریزوں کو جرأت نہیں ہوئی کہ مسلمانوںکے دینی مراکز سرکاری تحویل میں لے کر ان کی مذہبی آزادی، مذہبی رسوم اور عبادات کی آزادانہ ادائیگی پر پابندی لگا سکیں۔ انگریز کا یہ خواب گزشتہ برس 27ستمبر 2020 وزیراعظم عمران خاں کی حکومت میں شرمندہ تعبیر ہوا جب پاکستان کے ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں، معمول کی قانون سازی اور روایتی طریقے سے ہٹ کر، عجلت، تحکُّم اور دھاندلی سے، ضروری بحث وتمحیص کے بجائے کشیدہ حالات اور ہنگامی صورتِ حال پیدا کرکے وقف املاک بل 2020 منظور کیا گیا۔ اس بل میں قرار دیا گیا ہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں مساجد، مدارس، امام بارگاہوں کے لیے وقف زمین کے جملہ تصرفات کا انتظام حکومتی نگرانی میں چلے گا اور یہ سب چیف کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہوںگے۔ شرعی لحاظ سے وقف کی صحت و تمامیت کسی رجسٹریشن پر موقوف نہیں ہے۔ حکومتی نگرانی بھی ممکن نہیں کیونکہ اوقاف کا غالب حصہ پرائیویٹ سطح پر ہوتا ہے۔ بل کے مطابق حکومت کو وقف املاک پر قائم تعمیرات کی منی ٹریل معلوم کرنے اور آڈٹ کا اختیار ہوگا۔ یہ شق بھی غیر شرعی ہے کیونکہ وقف ایک عبادت ہے، بالخصوص مساجد ومدارس کی مد میں وقف کرنا عبادت ہے، اس قسم کی مالی عبادت میں رازداری کا شرعی پہلو منی ٹریل دینے کا پابند نہیں ٹھیراتا۔ اس قانون کے ذریعے دین اور دینی شعائر سے ناآشنا انتظامیہ کو دینی مراکز پر تسلُّط دینا درحقیقت دینی مراکز کی تباہی اور بربادی کی کوشش ہے۔
خاندان کسی بھی معاشرے کے تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی استحکام کا بنیادی یونٹ ہے۔ اس عمارت کی بنیادوں کو ہلانے اور برباد کرنے کے لیے 21جون 2021 کو پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے باہمی اختلافات فراموش کرکے گھریلو تشددکی روک تھام کا بل منظور کیا۔ اس قانون کے تحت گھر کے کسی بھی ناراض شخص کو عدالت میں درخواست دینے کا حق حاصل ہے۔ اگر وہ والد، والدہ، شوہر یا بیوی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے سے انکار کر دے تو عدالت ملزم کو حکم دے گی کہ وہ اسے علٰیحدہ گھر لے کر دے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکتا ہو تو پھر عدالت اسے کسی دارالامان وغیرہ بھیج دے گی۔ اگر ملزم کے خلاف مقدمہ درست ہو تو عدالت ایک عارضی حکم جاری کرے گی جس کے تحت ملزم سے کہا جائے گا کہ وہ درخواست گزار سے براہ راست یا فون اور موبائل پر بات چیت بھی نہیں کر سکتا۔ ایسے ملزم کو درخواست گزار سے دور رکھنے کے لیے اس کے ہاتھ میں ایک کڑا پہنا دیا جائے گا جس میں ایک جی پی ایس ٹریکر لگا ہوگا، تاکہ علم ہوسکے کہ ملزم کہیں عدالت کے حکم کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ عدالت اپنے احکامات کی نگرانی کے لیے علاقے کے تھانے کے ایس ایچ اور کی ذمے داری لگا سکتی ہے۔
حکمرانی کے معاملات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نافرمانی اور اسلامی شریعت کے منافی قانون سازی حکمرانوں کا وہ ظلم ہے جو کسی بھی طور قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جن جن ادوار میں ایسی کوششیں کی گئیں دینی اور سیاسی جماعتوں کے مخلص قائدین اور علماء کرام سڑکوں پر نکلے اور احتجاج کیا اور ان قوانین کو یکسر مسترد کیا۔ حکمرانوں کو بیش تر ان قوانین کو واپس لینا پڑا۔ اسے ایک عظیم کامیابی باور کیا جاتا لیکن یہ کامیابی اس وقت ناکامی میں بدل جاتی جب حکمران کوئی دوسرا خلاف شریعت قانون سامنے لے آتے۔ مخلص قائدین اور علماء کرام پھر میدان میں کود پڑتے۔ ایوب خان کے دور سے تاحال ٹرک کی لال بتی کے پیچھے دوڑنے کا یہ عمل جاری ہے۔ اس پورے عمل میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیاسی قائدین اور علماء کرام خلاف شریعت قانون سازی کے شجر خبیثہ کی پتیوں اور شاخوں کو برباد کرنے کی تو پوری تندہی سے کوشش کررہے ہیں لیکن اس جڑ پر کدال چلانے کی طرف کسی کی توجہ نہیں جس سے یہ شاخیں اور پتیاں نمو اور خوراک حاصل کرتی ہیں۔
پاکستان میں آج تک جو بھی حکمران برسر اقتدار آئے خواہ وہ جمہوری انتخابات کے ذریعے آئے یا فوجی انقلاب کے، ان سب کے طرز حکومت میں اسلام موجود نہیں رہا۔ پاکستان کے ایجنٹ حکمران، ان کے گرد پائے جانے والے ملازمین، منافقین اور موقع پرست لوگ جو اسلام کے لیے فکرمند ہونے کا ڈراما کرتے ہیں سب اس ملک میں سودی سرمایہ دارانہ نظام نافذ کررہے ہیں۔ اسلام کے تصورات اور احکامات کو بگاڑنا، کفر کے قوانین نافذ کرنا اور ان کے نفاذ کے لیے ضروری قانون سازی کرنا اس سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اہداف اور ٹارگٹس ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پہلے اس نظام کے تحت لوگوں کو منتخب کرکے قانون سازی کے اختیار کے ساتھ اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور پھر جب کفر کے منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے وہ قانون سازی کرتے ہیں اور اکثریت کی بنیاد پر ان قوانین کو منظور کر لیتے ہیں تو ہم پھر احتجاج شروع کردیتے ہیں۔ اس احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی طرف ادنیٰ توجہ بھی نہیں دی جاتی جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قوانین کو مسترد کرتا ہے اور انسانوں کے قوانین پر عمل کرنے پر زور دیتا ہے۔ امت مسلمہ کو ایسے نگہبانوں کی ضرورت ہے جو حکمرانوں کے سطحی بیانات اور کھو کھلے اسلامی نعروںسے دھوکا کھانے کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی بنیادوں سے برباد کرکے لوگوں کو اس روشنی کی طرف لائیں جو اسلامی شریعت کے نفاذ سے پھوٹتی ہے۔