اشتہار بازی

552

اشتہار بازی آج کل ایسے ہی ہے جیسے کبوتر بازی۔ جس طرح کبوتر باز اپنے کبوتروں کے ذریعے دوسروں کے کبوتروں کو دانہ ڈالتا ہے اور پھنساتا ہے۔ اور آآ آ کی صدا لگاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کے لیے ماڈل گرل کی طرح اپنی کبوتری کا بھی استعمال کرتا ہے۔ یہی حال آج کل کی اشتہار بازی کا بھی ہے۔ جسے عرف عام میں مارکیٹنگ کہا جاتا ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں اور قسمیں ہیں۔ اس کے لیے اخبارات و رسائل یعنی پرنٹ میڈیا۔ ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا یا الیکٹرونک میڈیا۔ بل بورڈز وغیرہ اور انسانی رابطوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ایک چورن والا کسی بس میں چڑھ کر مسافروں پر طبع آزمائی کرتے ہوئے آواز لگاتا تھا کہ بھائیوں ہر مرض کا علاج دو گولی سلیمانی چورن۔ گولی ہضم۔ کھیل ختم۔ پتا نہی کھیل سے اس کی کیا مراد ہوتی تھی۔ ہم تو سمجھتے ہیں اس سے اس کی مراد مریض شقیقہ اور رفیقہ اور جملہ امراض کمزوری ٔ جسم و جان ہے۔
اسی طرح اگر آپ کا گزر گرمیوں میں شاہراہ فیصل سے ہو تو آپ ڈرائیونگ پر چار حرف پڑھ کر ان تمام بل بورڈز سے لطف اندوز ہوں گے جو دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ اور جس میں کوئی نہ کوئی حسینہ کسی نہ کسی لان کے سوٹ میں پتا نہیں کس کے لان پر پڑی ہوتی ہیں۔ اور بعض اوقات تو لان کا سوٹ ماڈل پر کم اور لان پر زیادہ یا ہوا میں لہراتا دکھاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر آپ حادثہ سے بچ جائیں تو آپ کا ڈرائونگ لائسنس پکا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی حسینہ بلیڈ کے اشتہار میں نظر آتی ہے اور کسی نوجوان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہتی ہے ’’واٹ اے شیو‘‘ اب بھلا بتائے بلیڈ اور مرد کے شیو سے خاتون کا کیا تعلق۔ مگر نہیں ان کو تو کسی نہ کسی طرح اپنی پروڈکٹ کو بیچنا ہے چاہے قوم کے اخلاق اور مزاج کا ستیاناس ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ایسے ایسے اشتہار دکھائے جارہے ہیں اور اچانک سے چلادیے جاتے ہیں عین پروگرام اور خبر نامے کے بیچ میں کہ فوراً چینل بدلنا پڑتا ہے۔ اس سے زیادہ ہمارا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ اب دیکھیں کہ جو بات ہم لکھ نہیں سکتے وہ کھلے عام دکھائی جارہی ہے۔ چند ٹکوں کی خاطر نسلیں خراب کی جارہی ہیں۔
اس طرح کی اشتہار بازی نے نور مقدم جیسی کہانیوں کو جنم دیا ہے۔ میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کو تقویت دی ہے۔ اگر حکومت نے ایسی اشتہار بازی کو نہ روکا تو خدا نخواستہ ہماری آنے والی نسلیں بے حیائی اور بے ہودگی کے گڑھے میں نہ جا گریں۔ آپ کپڑوں کی دوکانوں پر دیکھیں گے کہ کوئی اچھا خاصا مونچھوں والا ہٹا کٹا نوجوان ساڑھی لپیٹ کر کہتا ہے ’’بی بی جی کیسا؟؟‘‘۔ اور بی بی جی سوچ میں پڑ جاتی ہیں کہ ساڑھی کی تعریف کروں کہ نوجوان کی۔
اب آپ نظر ڈالیں۔ ڈاکٹروں۔ میڈیکل نمائندوں اور دواساز کمپنیوں پر۔ جو مارکیٹنگ کا ریکارڈ توڑ چکی ہیں۔ ان تینوں کا ایسا مافیا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ میڈیکل نمائندہ ڈاکٹروں کو گھیرتا ہے تاکہ ڈاکٹر اس کی کمپنی کی دوائیں ضرورت یا بلاضرورت ضرور لکھے۔ ڈاکٹر بھی پہلے سے تیار ہوتا ہے تاکہ اپنا کمیشن پکا کرسکے۔ اور کمپنیاں اپنی دن دونی رات چوگنی ترقی کے لیے کبھی ڈاکٹر کو مع فیملی دنیا کے سیر سپاٹے پر بھیجتی ہیں۔ کبھی فارم ہاوسز میں پکنک کراتی ہیں۔ کبھی زیادہ سے زیادہ کمیشن سے نوازتی ہیں۔ تو کبھی نئی نویلی چم چم کرتی گاڑیاں دیکر لبھاتی ہیں۔ ان حالات میں مریض بے چارہ جائے تو کہاں جائے۔ ایسے میں مریض کے لیے صرف قبرستان ہی جائے پناہ رہ جاتی ہے مگر بقول شاعر
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
وہاں بھی بغیر کمیشن اور کھلائے پلائے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ قارئین آپ تو واقف ہیں اور جو نا واقف ہیں۔ ان کے لیے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ مر کے دیکھیں۔ لگ پتا جائے گا۔ یہی حال اسپتالوں۔ ڈاکٹروں۔ ایمبولینس والوں اور لیبارٹریوں کا ہے۔ کوئی کسی ڈاکٹر کے پاس چلا جائے پھر دیکھیں یہ گول چکر کیسے چلتا ہے۔ ڈاکٹر بضد ہوتا ہے کہ جو ٹیسٹ اس نے لکھے ہیں وہ اس کی پسندیدہ لیبارٹری ہی سے کروایا جائے کیونکہ وہاں اس کا کمیشن بندھا ہے۔ اسی طرح مریض کو اپنی پسند کے اسپتال بھی بھیجا جاتا ہے۔ تاکہ وہاں سے کمیشن لیا جاسکے۔ بلکہ اب تو ایک چھوٹا اسپتال کسی بڑے اسپتال کو مریض بیچ دیتا ہے اور مرض کی نوعیت کے مطابق طے شدہ ریٹ پر سودا پکا ہوجاتا ہے۔ اب آپ ایمبولینس کے کرتوت دیکھیں۔ ابھی حال ہی میں ہمارے کورونا کے مریض کو ایک اسپتال نے لینے سے انکار کردیا تو ایمبولینس کے ڈرائیور نے ہمیں پیشگی تسلی دی کہ آپ کو ہم ایک اور اسپتال لے چلتے ہیں وہاں داخلہ مل جائے گا۔ اور واقعی وہاں داخلہ مل گیا۔ مگر چلتے چلتے اس نے ہم سے فون نمبر مانگا ہم نے بھی سوال نہ کیا۔ اور اخلاقاً نمبر دے دیا کہ اس نے ہمارے کورونا کے مریض کو داخلہ جو دلوایا تھا۔ بعد میں اس نے فون کرکے ہم سے تصدیق کی کہ ہم اسی اسپتال میں ہیں یا نہیں۔ تاکہ اسپتال سے اپنا کمیشن پکا کرسکے۔ اور اسپتال اسے گولی نہ دے سکے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کمپنیوں کا کروڑوں کا مارکیٹنگ کا بجٹ ہوتا ہے۔ یہاں ہم حکومت اور اداروں کو بھی مورد الزام قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان سب معاملات کو کنٹرول نہیں کیا بلکہ وہ خود اکثر اس سارے گورکھ دھندے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ہم ایک بہت ہی آسان اور تیر بحدف نسخہ مفت میں تجویز کرتے ہیں کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے جس میں کمپنیوں کو پابند کرے کہ جو بجٹ وہ اپنی مارکیٹنگ پر خرچ کرتی ہیں۔ وہی بجٹ مارکیٹنگ کے بجائے اپنی پروڈکٹ کو بہتر سے بہتر بنانے اور سستی کرنے پر خرچ کرے۔ یقینا جو چیز مارکیٹ میں بہتر ہوگی اور سستی ہوگی وہ خود بخود بکے گی۔ اس کے لیے مارکیٹنگ کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور مارکیٹ میں ایک صحت مندانہ رجحان قائم ہوگا اور بالآخر عوام کو اس کا فائدہ ہوگا۔ اور لوگوں کی زندگی آسان ہوگی۔
مگر حکومت ایسا کیوں کرے۔ وہ تو خود پی ٹی وی اور دیگر سرکاری اخبارات کے اشتہارات سے کما رہی ہے۔ اور نجی اخبارات اور ٹی وی چینلز کو ان ہی اشتہارات کی بندش سے پابند کرتی ہے اور اپنا ہم نوا بناتی ہے۔ صحافیوں کو خریدتی ہے۔ اور بہت کچھ عوام کی خدمت کے کام کرتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ملک تین کاف پر چل رہا ہے۔ کمیشن۔ کرپشن اور کک بیکس۔ ایسے میں ہم کیوں عوام کے غم میں دبلے ہوں۔ ہمارا کام تو حکومت کی تعریف کرنا ہے اور اس کے کارناموں پر زمین آسمان کے قلابے ملانا ہے۔ عوام کو چاہیے۔کہ خود بھی کچھ کرلیں۔