۔76 برس کی زندگی

435

 

 

۔25 ستمبر 1903 سے 22 ستمبر 1979 تک ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے سچ لکھا، سچ بولا اور دلیل سے بات کی، ایک ایسے وقت میں کم وسائل کے باوجود ایک ایسی تحریک کھڑی کردی جس نے اقامت دین کا فریضہ آگے بڑھ کر سنبھال لیا، یہ شخص اللہ کی غلامی میں خوش تھا اور دنیا سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا آگ کا پانی سے ہوتا ہے، نہایت نفیس، عمدہ گفتگو، شائستہ مزاج، نرم دل، مگر باطل کے مقابل ایک چٹان تھا، ریاست مدینہ کے حقیقی تصور سے آشنا تھا اسی لیے تو گفتگو کم اور کردار زیادہ دکھایا، سید ابو الااعلیٰ مودودی، ملت اسلامیہ کے بہترین رہنماء تھے، ایک ایسے کوہ گراں تھے اور ایک ایسے کارکن کہ رضائے الٰہی کے لیے کام کرکے جنت الفردوس پانا ہی ان کا اصل ہدف تھا، تفہیم القرآن کا دیپاچہ ہی مطالعہ کرلیا جائے تو ان کی زندگی کے تمام اہداف سامنے آجاتے ہیں، الجہاد فی السلام، ایک ایسی کتاب جس نے ایک انسان کو دوسرے انسان کی زندگی کی حفاظت کا پہرے دار بن جانے درس دیا کہ تلوار صرف اس وقت اٹھائی جائے جب کوئی اسلامی ریاست کے قیام کی راہ میں مزاحمت کرے۔ جماعت اسلامی تشکیل دی تو اس کے رکن کے لیے معیار یہ مقرر کیا کہ تقویٰ، علم کتاب و سنت، امانت دیانت دینی بصیرت، فہم، اصابت رائے، تدبر قوت فیصلہ، راہ خدا میں ثبات و استقامت اور نظم جماعت کو چلانے کی اہلیت لازمی ہے، امارت کے لیے معیار یہ ہے کہ نہ وہ خود امارت کا امیدوار ہو اور نہ اس سے کوئی ایسی بات ظہور میں آئی ہوجو یہ پتا دیتی ہو کہ وہ خود امارت کا خواہش مند ہے یا اس کے لیے کوشاں ہے۔ یہ معیار آج ایک سوالیہ نشان ہے۔
مولانا مودودی کا ہدف یہ تھا کہ دعوت اس کے بعد تربیت اور پھر تنظیم اور چوتھا کام یہ تھا کہ حاصل شدہ وسائل کو جمع کرکے انقلاب امامت کے لیے استعمال کیا جائے، جماعت اسلامی جیسی تنظیم جن بنیادوں پر کھڑی کی گئی یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا، نہایت غیر معمولی اور بے مثال کام صرف علم اور حکمت اور اپنے عمل کو ایک پیج پر لاکر ہی کیا جاسکتا تھا انہوں نے یہ کام کردکھایا، دعوت کیا ہے؟ صرف رب کی بندگی، مولانا کی ڈکشنری میں عبادت کے صرف تین معنی ہیں، پرستش، اطاعت اور فرماںبرداری، یہ مفہوم انہوں نے اچھی طرح سمجھا اور اسے پھیلانے کے لیے ساری عمر فکر مند رہے انہوں نے اپنی قلم کے ذریعے، گفتگو کی مدد سے رحمن کے بندوں کے اوصاف بیان کیے اور جماعت اسلامی کے ذریعے قرآن کا مطلوب انسان تیار کیا، اور تقاضا یہی تھا کہ یہ انسان شہادت حق کے لیے کھڑا ہوجائے، آئیے آج جائزہ لیں، کہ مولانا جس طرح کے کارکن کے خواہش مند تھے، اس کارکن کو امر معروف و نہی عن المنکر کے معیار سے قبل صرف پڑوسیوں کے حقوق کی میزان پر ہی پرکھ لیں… جواب مثبت مل جائے تو بات آگے بڑھائیں، دعوت کے بعد تربیت اور پھر تنظیم کی بات ہے، مولانا نے تنظیمی اجتماعات میں عدم شرکت کے لیے شرعی عذر کی شرط بلاسبب نہیں لگائی تھی، اس کے سامنے کاروباری نقصان یا مالی ہرج کوئی معنی نہیں رکھتا، اس شرط میں پیغام یہی ہے کہ ’’وہ یہی سے لوٹ جائیں جنہیں زندگی ہو پیاری‘‘۔
مولانا ذاتی زندگی میں کمال درجے کے حلیم انسان تھے، جس زمانے میں وہ سیاسی ماحول میں کام کر رہے تھے وہ نظریاتی سیاست کا ماحول تھا، مصلحت نام کی کوئی چیز نہیں تھی، ماچھی گوٹھ کے ’’اسٹیشن‘‘ پر جو لوگ اترے انہیں دلیل سے سمجھایا تھا، آج کل بھی میڈیا، سوشل میڈیا کا دور بلکہ بدتر دور ہے مگر جس زمانے وہ تھے یہ بھی کوئی کم بدتر نہیں تھا، علماء کے کارٹون بنائے جاتے تھے، مجال ہے کہ مولانا نے کبھی غصے میں جواب دیا ہو، کسی پریس کانفرنس میں ناگوار سوال پر ماتھے پر شکن آئی ہو اور یہ کہا کہ سوال کرو تقریر نہ کرو… سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مولانا جیسے شخص نے جس دعوت کو سمجھا، اور جس طرح کی حلیم طبیعت پائی آج وہ ہمیں کم رہنمائوں میں دکھائی دیتی ہے، مولانا کی زیر صدارت ہونے والے اجلاسوں کی روداد مطالعہ کی جائے تو پتا چل جاتا ہے کہ رہنماء کیا ہوتا ہے، کوئی تو وجہ ہے کہ آج بھی دنیا مولانا کو یاد کرتی ہے۔
اللہ بھی ان پر بہت مہربان رہا، اس لیے تو انہیں ایک ایسا لٹریچر ملت اسلامیہ کے لیے تیار کرنے کا موقع دیا جس کے ذریعے تفہیم القرآن کی صورت میں قرآن کی تفہیم دنیا پھر میں پھیلی، سیرت سرور عالم کے ذریعے اللہ کے رسولؐ کی حیات مبارکہ مسلمانوں اور دنیا کے انسانوں کے سامنے آئی، جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے اقوام عالم کو اس بات کا پتا چلا کہ انسان کے ذمے دوسرے انسان کی عزت اور زندگی کی رکھوالی کا معیار کیا ہے، برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ان کے اندر کا جوہر اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تو تلاش کرلیا تھا مگر مسلم لیگ تلاش نہیں کرسکی، مگر یہ نصیب کی بات ہوتی ہے جس نے مولانا کی زیارت کی اس نے اللہ اور اللہ کے رسول کے پیغام کو بھی سمجھ لیا رہتی دنیا تک مولانا لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں ہے کیا چیز، لوح و قلم تیرے ہیں