غربت اور پاکستان

459

۱۶ اکتوبر کو دنیا بھر میں خوراک اور ۱۷ اکتوبر غربت کے عالمی دن کے طور پر منائے جاتے ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی سطح پر بہت سے ممالک خوراک کی قلت اور غربت جیسے مسائل سے بر سر پیکار ہیں خصوصاً مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے ممالک میں سر فہرست ملک پاکستان ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، زرعی اور ڈیری مصنوعات کی پیداوار میں پاکستان دنیا کے ٹاپ ۶ ممالک کی فہرست میں شامل ہے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ۴ موسم، محنتی کسان اور پر عزم افرادی قوت سے نوازا ہے، پاکستان دودھ کی پیداوار حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے، پاکستان گوشت کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ برامد بھی کرتا ہے، خوراک کے بنیادی جزو گندم، چاول، دالوں اور مختلف اجناس کی پیداوار میں بھی خود کفیل ہے، پاکستان دنیا کے بہترین اور طویل ترین نہری نظام کی نعمت سے مالا مال ہے، ان تمام تر صلاحیتوں کے باوجودیہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ان غریب ترین ممالک کی صف میں شامل ہے جس کے عوام غذا اور غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ غذا اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں زچہ بچہ کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ۹۶ لاکھ بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ ۴۴فی صد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ گزشتہ سال کا سرکاری اعداد وشمار ہے جبکہ حقیقی اعدادو شمار اس سے زیادہ ہے۔ تھر اور چولستان میں ہر سال سیکڑوں بچے ناکافی غذا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا بیماریوں کا شکار ہو کر مستقل طور پر مختلف جسمانی عوارض کا شکار ہو کر زندگی میں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
باہر مختلف قومی اور بین الاقوامی سرویز میں پاکستان میں غربت کی شرح ۳۰ فی صد بیان کی جاتی ہے لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد ۵۰ فی صد سے زائد ہے، یہ ۵۰ فی صد وہ آبادی ہے جسے غذائیت سے بھرپور غذا میسر نہیں ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ۳۶ ممالک میں ہوتا ہے جو خطرناک حد تک غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان کا ۷۰ فی صد طبقہ زراعت پر انحصار کیے ہوئے ہے مگر حکومتوں کی ناقص پالسیوں اور کسان کے استیصال نے اس شعبہ کو برباد کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم خوراک کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں اور بہت سی زرعی اجناس دوسرے ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کو خوراک کی کمی کے ساتھ اس وقت پانی کی شدید قلت کا مسئلہ بھی در پیش ہے، جس طرح پاکستان کے خلاف ہمسایہ ملک بھارت ہر طرح کی جارحیت کر رہا ہے، اس جارحیت میں پاکستان کا پانی بند کرنے یا محدود کر دینے کے ہتھکنڈے بھی شامل ہیں، پاکستان کا زیادہ تر زرعی رقبہ بین الاقوامی دریائوں سے آنے والے پانی کے ذریعے سیراب ہوتا ہے اور بھارت پاکستان کے حصے کے دریائوں پر بڑے بڑے ڈیمز بنا کر پانی کے بہائو کم یا محدود کر رہا ہے جس سے ہماری زراعت اور زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات اور معاشیات کے مطابق پاکستان کو روز بروز پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق خوراک کی قلت کے ساتھ پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے اگر اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ۲۰۲۵ء کا سورج اپنے ساتھ خشک سالی کا عذاب پاکستانی قوم پر مسلط کر سکتا ہے لہٰذا اس حوالے سے فوری ٹھوس پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے ایسے میں ڈیمز بنانے کا اقدام قابل تحسین ہے۔
پاکستان روز بروز معاشی بدحالی کی طرف بڑھ رہا ہے غربت اور مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں موجودہ حکومت کا تین سال میں عوام ریلیف دینے کا ہدف پورا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں حالیہ خطرناک اضافہ غربت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے میں ریاست مدینہ کو بطور رول ماڈل بنانے کا عزم تو خوش آئند دکھائی دیتا ہے مگر حقیقی تبدیلی تب رونما ہو گی جب حقیقتاً آئین ریاست مدینہ کے مطابق معاشی پالیسیاں وضع کی جائیں گی۔ اگر امرا سے محصولات، زکوٰۃ کے ذریعے پیسہ لے کر غرباء میں شفاف طریقے سے تقسیم کیا جائے تو خلافت عمر ؓ کی طرح وہ وقت پاکستان میں بھی ضرور آسکتا ہے جب زکوۃ دینے والے تو بہت ہوں لینے والا کوئی نہ ہو۔ پاکستان کو اس معاشی بد حالی سے نکالنے کے لیے حکومت کو ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر ملک کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی پاکستان کو اس وقت معاشی، سیاسی حالات کی شدید ضرورت ہے جو ہمارے ملکی تشخص کی بقاء کے لیے بھی نا گزیر ہے۔