اسٹیٹ بینک کی ذومعنی رپورٹ

289

اسٹیٹ بینک نے نئی زری پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ اس موقع پر جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معاشی بحالی کی رفتار توقع سے زیادہ رہی، تاہم جاری خسارے میں اضافے اور مہنگائی بڑھنے کا خطرہ ہے۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید 0.25 فیصد اضافہ کردیا۔ اس کے بعد اب شرح سود 7.25ہوگئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اچھی معاشی شرح نمو کا فائدہ نہیں ہوسکا۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ ترسیلات زر کے مستحکم ہونے، برآمدات کی رفتار میں مناسب اضافے اور عمدہ کارکردگی کو بے تحاشا درآمدات نے بے اثر بنا دیا۔ اس فیصلے پر تاجروں اور صنعتکاروں نے تبصرہ کیا کہ مہنگی بجلی اور پٹرول کے بعد شرح سود میں اضافے سے بھی مشکلات ہوں گی۔ اسٹیٹ بینک نے معیشت کی بحالی کے جو پیمانے بتائے ہیں یہ وہی ہیں جو جنرل پرویز مشرف بتایا کرتے تھے کہ لوگ موبائل استعمال کررہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسٹیٹ بینک نے بھی یہی کہا ہے کہ شعبہ خدمات میں مضبوط بحالی ہوئی ہے۔ اس کا پیمانہ کیا ہے؟ کیونکہ عوام تو ہر شعبے میں پریشانی ہی کا شکار ہیں۔ اسی طرح بتایا گیا ہے کہ ریستورانوں اور شاپنگ سینٹرز میں سرگرمیاں کووڈ سے پہلے کی سطح سے تجاوز کرگئی ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 3 گنا یعنی 20 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ عوام پریشان ہیں۔ اب اسٹیٹ بینک کا اعلامیہ بھی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی طرح ہوگیا ہے۔ شرح نمو اچھی تھی لیکن مہنگائی بڑھے گی۔ اگر برآمدات میں مناسب حد تک عمدہ کارکردگی تھی تو کس کی منظوری سے اتنی درآمدات ہوئیں کہ برآمدی کارکردگی اور زرمبادلہ کے ذخائر کے اضافے کو بھی غیر موثر بنادیا۔ دراصل جس قسم کے اعداد و شمار بتائے جارہے ہیں وہ بھی سمجھ سے بالا ہیں۔ دنیا میں معاشی ترقی کے جائزے اس طرح پیش نہیں کیے جاتے کہ چونکہ ریستورانوں اور شاپنگ سینٹرز میں سرگرمیاں کووڈ سے پہلے کی سطح سے تجاوز کرگئی ہیں، اس لیے معیشت بہتر ہورہی ہے۔ گویا کوئی فٹ پاتھ پر نہیں سوتا اور سب موبائل استعمال کررہے ہیں، اس لیے ملک ترقی کررہا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوتا، بلکہ معاملات کسی اور طرف جارہے ہیں۔ کووڈ کے دوران ریستورانوں اور شاپنگ سینٹرز کے ساتھ جو سلوک کیا گیا لاک ڈائون کے نام پر گدھے گھوڑے کی باگ کی طرح کھینچ کر رکھا گیا، کبھی کھولا کبھی بند کیا گیا، لوگ بیروزگار ہوگئے، کاروبار ٹھپ ہوگیا اور ہر وقت تلوار لٹکتی رہی۔ اب کچھ دنوں سے کاروبار ہورہا ہے تو یہ کہا جارہا ہے کہ کووڈ سے پہلے کی سطح سے سرگرمیاں تجاوز کرگئیں۔ لیکن مارکیٹ کا سروے بھی تو کیا جائے۔ کتنے گاہک چیزیں خرید رہے ہیں، کتنے صرف قیمت معلوم کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ گزشتہ خسارے کا کیا ہوگا، 2 سال کے دوران دکانوں کے کرائے، ملازموں کی تنخواہیں اور دیگر مستقل اخراجات تو شاپنگ سینٹرز کو کاروبار کے بغیر کرنے پڑے تھے۔ اس خسارے کا نئی سرگرمیوں کے نتائج سے موازنہ کرکے کوئی نتیجہ نکالا جائے تو حقائق کے کچھ نہ کچھ قریب ہوگا۔ یہی حال ریستورانوں کا ہے جہاں پہلے اسی طرح کا رش ہوتا تھا لیکن وہاں کے حالات بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ کتنے لوگ صرف چائے پی کر چلے جاتے ہیں، کتنے لوگ کھاتے پیتے ہیں۔ بیروزگاری کی وجہ سے آن لائن ڈیلیوری وغیرہ کا کام شروع ہوا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات ریستوران اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کے پاس گاہکوں سے زیادہ رائڈرز کا رش ہوتا ہے۔ اسے معاشی ترقی کا اشاریہ نہ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ بعض موٹی موٹی باتیں ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ پٹرول بالآخر 125 پر پہنچادیا گیا۔ کیوں؟ روپیہ 108 روپے فی ڈالر سے گر کر 170 اور پھر اب 168 کے درمیان لٹک رہا ہے۔ کس کے حکم پر؟ بجلی گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے مہنگی ہوتی جارہی ہے اور اس کی اچانک لوڈشیڈنگ بھی ہوتی ہے۔ اب بلوں میں نت نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ کوئی حد ہے اس کی؟ تاجروں نے اسلام آباد کے گھیرائو کا اعلان کیا ہوا ہے۔ وزیر خزانہ اب وضاحتیں کررہے ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں توسیع کا آرڈیننس کاروباری برادری کو ہراساں کرنے کے لیے نہیں ہے۔ لیکن یہ سارا کام ملک میں کاروبار اور نتیجتاً معیشت ہی کو تباہ کرنے کا سبب بنے گا۔ کاروباری برادری تو ہراساں ہے جب ہی گھیرائو اور دھرنے پر تیار ہے۔ وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ اب زرعی شعبے کی طرف توجہ دیں گے۔ سوال تو ہوگا کہ اب تک زرعی شعبے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی گئی۔ ایک زرعی ملک میں چینی مہنگی، آٹا مہنگا، کبھی دونوں غائب… اگر حکمران ہی اپنا رخ متعین نہیں کریں گے اور دوسرے ملکوں میں مہنگائی کی مثالیں دیں گے تو پھر معیشت تباہ ہی ہوگی۔اور دوسرے ملکوں میں کیا صرف مہنگائی ہے وہاں اور بھی تو بہت کچھ عوام کو ملتا ہے ۔ وہاں نظام بھی ہے اور احتساب بھی ہے۔ اس کی مثال بھی نہیں۔