عدالت عظمیٰ نے اردو کو قومی سرکاری زبان کے طور پر اختیار نہ کرنے کے وفاق اور حکومت پنجاب کے عمل کے خلاف زیر سماعت مقدمے میں دونوں سے جواب طلب کر لیا۔ وفاق اردو کے نفاذ میں ناکام ہے اور پنجاب حکومت صوبے میں پنجابی کو رائج کرنے میں ناکام رہی ہے اس پر صوبائی حکومت سے جواب طلب کر لیا گیا۔ عدالت عظمیٰ میں دو درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ وکیل کوکب اقبال نے اردو کو سرکاری زبان نہ بنانے پر وفاق کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے قائم مقام سربراہ جناب عمر عطا بندیال نے تبصرہ بھی کیا ہے اور جواب بھی طلب کیا ہے لیکن ایک سوال عدلیہ سے بھی ہے کہ کب تک سماعت در سماعت، جواب اور جواب الجواب چلتا رہے گا۔ اب پھر سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا معاملہ آج کا تو نہیں ہے۔ آئین پاکستان میں بھی درج ہے اور عدالت عظمیٰ کا حکم بھی آچکا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمران جس طرح سود کو نہیں چھوڑنا چاہتے اسی طرح انگریزی سے ان کی محبت بھی ختم نہیں ہو رہی۔ یہ بے سبب بھی نہیں ہے۔ اس کی پوری ایک زنجیر ہے۔ انگریزی تعلیمی ادارے، مغرب کا تعلمی نظام، ان کا امتحانی نظام اور اس کے ذریعے خاص طبقے کا وجود اور آبیاری، یہ حکمران طبقہ کہلاتا ہے۔ اگر اردو کو سرکاری زبان تسلیم کر لیا اور تمام مراسلت اردو میں کی جانے لگی تو عام آدمی ہر معاملے کو سمجھنے لگے گا۔ عام تعلیمی اداروں سے پڑھے ہوئے نوجوان اور عام طبقے کے لوگ بھی حکمران طبقے کے لوگوں کا مقابلہ کرنے لگیں گے۔ پھر حکمران طبقہ کیا کرے گا۔ اس کابھرم بھی کھل جائے گا اور ملک کی عظیم اکثریت قومی معاملات میں عمل دخل کی صلاحیت حاصل کرلے گی۔ جناب عطا بندیال نے عربی اور فارسی سیکھنے کی بات کی ہے۔ ضرور سیکھنی چاہیے قرآن و حدیث سمجھنے میں بھی آسانی ملے گی لیکن اپنے فیصلوں پر عمل بھی تو کرائیں۔