امریکی جنگ کی قیمت

302

زبیر احمد

امریکا افغانستان میں جنگ ہار گیا۔ شاید دنیا کے لیے یہ ایک حیران کن شکست ہے ، نہ صرف ایک خود ساختہ سپر پاور کو کلاشنکوف اور جذبہ ایمانی سے لیس ایک گروہ نے ناک زمین پر رگڑنے پر مجبور کردیا ، بلکہ واشنگٹن میں بیٹھے امریکی کمانڈرز اور تھنک ٹینک ابھی تک شکست کو تسلیم نہیں کرپارہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے انہوں نے امریکا کی طویل ترین جنگ سے اربوں ڈالر کمائے ۔
20 سال خون بہانے کے بعد صدر جوبائیڈن نے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا جس انداز میں اعلان کیا، وہ لب و لہجہ اور وہ الفاظ ایک شکست خوردہ شخص کے تھے ۔ 50 فیصد سے زائد امریکی اس جنگ کو شکست گردانتے ہیں۔
اگر یہ جنگ مزید جاری بھی رہتی تو اس کا نتیجہ مختلف نہیں ہونا تھا ، لیکن کئی امریکی جرنیلوں اور جنگی ساز و سامان بنانے والی کمپنیوں کے لیے یہ جنگ پیسہ بنانے کا ایک ذریعہ بن چکی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ یہ جنگ جاری رہے ، چاہے اس کے نتیجے میں مزید تباہی کیوں نہ ہو اور لوگ مرتے ہی کیوں نہ رہیں، چاہے وہ امریکی ہی کیوں نہ ہوں۔امریکی صدور نے جب بھی کسی ملک پر جنگ مسلط کی تو کبھی پروا نہیں کی کہ اس میں دوسرے عام بے گناہ لوگ بھی مریں گے ۔ جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں ایک بار بھی ان ہزاروں افغانیوں کا ذکر نہیں کیا جن کا امریکی فوج نے قتل عام کیا۔
انہوں نے صرف امریکی نقصانات پر بات کی اور صرف ذکر کیا کہ امریکی بیٹوں اور بیٹیوں کو مزید کسی دور دراز کی زمین پر مرنے یا زخمی ہونے کے لیے نہیں بھیجا جائے گا اور امریکی فوج کو ایسی جنگ نہیں لڑنی چاہیے جسے افغان فوج خود نہیں لڑنا چاہتی۔
یہ ایک انتہائی بے حس انسان کی تقریر تھی ، جس کی فوج نے بغیر کسی وجہ کے 20 سال تک بے گناہ بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو بے دریغ قتل اور بے گھر کیا۔ امریکی اور نیٹو افواج نے گھروں، اسکولوں، شادیوں، جنازوں یہاں تک کہ اسپتالوں پر بے دریغ گولہ باری کی ، لیکن امریکی صدر، بلکہ کسی عہدے دار کی زبان سے بھی معذرت کا ایک لفظ تک نہیں نکلا۔دراصل المیہ یہی ہے کہ مغرب والے باقی دنیا میں بسنے والوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔
ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد لوگ اس جنگ میں مارے گئے ہیں ، لیکن یہ اعداد و شمار حقیقت میں ان مصائب اور مشکلات کو بیان نہیں کرتے ، جس کا سامنا افغانستان اور پاکستان نے 20سال تک کیا ہے ۔
اس کے علاوہ دیگر اعداد و شمار میں وہ جانی و مالی نقصان بھی ہے ، جو اس جنگ کی وجہ سے پاکستان نے اٹھایا ہے ۔ اس کا امریکا نے شاذ و نادر ہی ذکر کیا ہے یا اسے تسلیم کیا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے امریکی مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے تباہ کن فیصلے کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی (فوجی اور شہری) لقمہ اجل بنے اور 150ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا، جب کہ آصف زرداری اور نواز شریف کے آخری 2 ادوار میں امریکا کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی ، جس میں بچوں سمیت سیکڑوں پاکستانی جاں بحق ہوئے ۔ دوسری طرف سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستانیوں کو نشانہ بناتے رہے ۔
اگر افغانستان میں جنگ پر امریکی اخراجات کی بات کریں تو پنٹاگون کے مطابق ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر لاگت کے اخراجات ہوئے ہیں، لیکن یہ تو صرف ساز و سامان اور امریکی فوج کی 20سال تک تنخواہوں کے اخراجات ہیں جب کہ تعمیر نو، ٹھیکیداروں کی بھرتیاں اور افغان فوج کی ٹریننگ کو شامل کیا جائے تو درحقیقت امریکا کے 2.26 ٹریلین( 2.260ارب) ڈالر افغان جنگ پر خرچ ہوئے ہیں۔
ان میں سے 145 ارب ڈالر افغانستان کی تعمیر نو پر خرچ ہوئے لیکن درحقیقت امریکی تعمیر نو کے منصوبوں میں کوئی بھی پائیدار منصوبہ نہیں تھا۔ یہ منصوبے افغان عوام کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ کاغذی ترقی دکھانے کے لیے تھے ۔ دراصل ان سے امریکی ٹھیکیداروں اور ان کے سرپرستوں نے اپنی جیبیں بھریں اور چلتے بنے ۔
افغانستان میں امریکی سرپرستی سے بننے والی حکومت کی توجہ صرف کرپشن اور لوٹ مار پر تھی۔ اس جنگ سے امریکا اور ان کے افغانی ایجنٹوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ حیرانی کی بات نہیں کہ افغانستان کے چند بڑے شہری مراکز سے صرف چند میل کے فاصلے پر لوگ ناقص غذا، صاف پانی کی کمی اور صحت کی سہولیات کی قلت جیسے سنگین انسانی مسائل کا شکار رہے جن کی کی وجہ سے بیماریوں میں اضافے کی شرح بہت زیادہ تھی۔20 سال تک جاری رہنے والی جنگ کی وجہ سے افغانستان کی تقریباً 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔
اگر امریکا نے افغانستان کے خلاف اپنی 20 سالہ جنگ میں خرچ کیے گئے 2.26 ٹریلین ڈالر 38 ملین کی افغان آبادی میں تقسیم کیے ہوتے تو ہر مرد، عورت اور بچے کو تقریباً 60ہزار ڈالر ملتے ۔ وہ امریکا کے خلاف لڑنے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کررہے ہوتے ۔ کوئی امریکی، نیٹو، افغانی، پاکستانی اس جنگ کے نتیجے میں اپنی جان سے نہ جاتا اور ہزاروں شہری معذور نہ ہوتے ۔
مگر یہ ہو نہ سکا… اور ایسا ہونا بھی نہیں تھا کیونکہ امریکی جرنیلوں، ملٹی نیشنل کارپوریشنوں، بینکوں اور اسلحہ بنانے والے کارخانوں کو امریکی عوام کی اجازت، منظوری اور علم میں لائے بغیر جنگ کے نام پر اخراجات کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔
امریکا کو ایک مافیا چلا رہا ہے جس کو انسانی جانوں کی کوئی پروا نہیں۔