سید گیلانی: ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی! (3)

415

مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کے بارے میں اگرچہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا موقف بالکل واضح تھا، وہ اسے متنازع علاقہ سمجھتی تھی جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا ابھی باقی تھا، تاہم جماعت اسلامی مقبوضہ علاقے میں موجود سسٹم کو بھی نظرانداز کرنے کے حق میں نہ تھی اور اس کا خیال تھا کہ اس سسٹم میں بھی جماعت کو اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ چناں چہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا اور 1972ء میں پہلی مرتبہ جماعت نے ان انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کیے، اگرچہ سرکاری سطح پر انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی لیکن عوام نے جماعت کے امیدواروں کی خوب پزیرائی کی اور سید علی گیلانی اپنے چار ساتھیوں سمیت ریاستی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسمبلی میں نمائندگی کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج کے مظالم کو بے نقاب کیا جائے اور کشمیریوں کے حق خودارادی کی حمایت میں آواز بلند کی جائے۔ پولیس کی کوشش تھی کہ گیلانی صاحب اسمبلی سے خطاب نہ کرنے پائیں، لیکن گیلانی صاحب پولیس کو جُل دے کر ایوان میں پہنچ گئے۔ ارکان اسمبلی سے خطاب کیا اور باہر نکل کر گرفتاری دے دی اور کافی عرصہ جیل میں رہے۔ 5 سال بعد 1977ء کے انتخابات میں گیلانی صاحب پھر منتخب ہوگئے اور انہیں ہرانے کی ساری کوششیں ناکام رہیں۔ مارچ 1985ء میں گیلانی صاحب کو گرفتار کرکے پھر جیل بھیج دیا گیا۔ وہ ابھی جیل ہی میں تھے کہ کشمیر کی آزادی میں دلچسپی رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ 1987ء کے ریاستی انتخابات ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم سے لڑے جائیں گے اور اسمبلی پہنچ کر کشمیر کی آزادی کے لیے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ مولانا محمد عباس انصاری متحدہ مسلم محاذ کے کنوینر اور غلام قادر موانی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ متحدہ مسلم محاذ نے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کیں تو پورے مقبوضہ علاقے میں بھونچال آگیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس بھی بوکھلا گئی، وہ فوج اور انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ سے ہمیشہ بازی لے جاتی تھی لیکن اب متحدہ محاذ کے آگئے اس کا چراغ بجھتا نظر آرہا تھا۔ عوام کا تمام تر رجوع متحدہ محاذ کی جانب تھا اور اس کے جلسے خوب رش لے رہے تھے۔ ان جلسوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے فضا گونجتی رہتی۔ سید علی گیلانی 22 ماہ بعد جیل سے رہا ہوئے تو حالات کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ ان کے انقلابی مزاج کو یہ رنگ سازگار تھا۔ چناں چہ وہ بھی اسی رنگ میں رنگے گئے اور متحدہ مسلم محاذ کے جلسوں میں گرجنے برسنے لگے۔ چوں کہ جماعت اسلامی محاذ کی سب سے اہم اتحادی تھی اس لیے محاذ کے جلسوں کو لوگ جماعت اسلامی ہی کے جلسے سمجھتے تھے۔ اس طرح جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
متحدہ مسلم محاذ کے جلسوں نے عوام کے جوش و جذبے میں غیر معمولی اضافہ کردیا۔ وہ ہر قیمت پر بھارت سے آزادی حاصل کرنے اور پاکستان سے ملنے کے لیے بے چین نظر آنے لگے۔ مقبوضہ کشمیر میں اُس وقت نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مخلوط حکومت تھی جب کہ مرکز میں کانگریس برسرقتدار تھی۔ چناں چہ مرکزی حکومت نے متحدہ مسلم محاذ کے پَر کترنے کے لیے متعدد احکامات جاری کیے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر متحدہ محاذ کو بین کردیا گیا۔ اس کو انتخابی جلسوں اور جلوسوں کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔ جب عوام کا دبائو بہت بڑھا تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سرینگر نے نہایت کڑی شرائط کے ساتھ متحدہ محاذ کو شہر کے اقبال پارک میں جلسے کی اجازت دی۔ جلسے کے منتظمین سے کہا گیا کہ اگر جلسے میں پاکستان کا پرچم لہرایا گیا تو ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ پاکستان کے حق میں تقریریں کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ منتظمین نے یہ پابندیاں قبول کرلیں۔ لوگوں کو پاکستان کا پرچم جلسہ گاہ میں لانے سے روک دیا گیا اور مقررین سے بھی گزارش کی گئی کہ وہ اپنی تقریروں میں پاکستان کا ذکر نہ کریں لیکن اس کے باوجود جلسے میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگتے رہے اور بہت سے نوجوان ایسی شرٹس پہن کر جلسے میں شریک ہوئے جن پر پاکستانی پرچم بنا ہوا تھا۔ جب کہ متحدہ محاذ کے تمام انتخابی امیدواروں نے کفن پہن رکھے تھے جو اس بات کا اظہار تھا کہ وہ جان دے دیں گے لیکن حصولِ آزادی کے نصب العین سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چناں چہ 4 مارچ 1987ء کو اقبال پارک سرینگر میں جو جلسہ ہوا وہ ایک ریفرنڈم کا درجہ رکھتا تھا۔ اس جلسے میں کشمیری عوام نے 23 مارچ 1987ء کو ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا۔
23 مارچ 1987ء کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات اس حال میں ہوئے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوج، پولیس اور ریاستی انتظامیہ کا قبضہ تھا، لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جارہا تھا اور ان سے کہا جارہا تھا کہ ہم نے آپ کے ووٹ ڈال دیے ہیں، آپ واپس چلے جائیں، لیکن لوگ اپنے ووٹ ڈالنے پر مصر رہے۔ ہر جگہ مسلم محاذ کے امیدوار جیت رہے تھے۔ ان کی مقبولیت اور کامیابی نوشتۂ دیوار نظر آرہی تھی۔ سیّد علی گیلانی سوپور کے آبائی حلقے سے امیدوار تھے ان کی مقبولیت کا عالم تھا کہ ہر
طرف ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ گیلانی صاحب ہی ہر حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یوسف شاہ (جو بعد میں سید صلاح الدین کے نام سے معروف ہوئے اور حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر بنے) ایراکول سے انتخاب لڑ رہے تھے، ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے مخالف امیدوار کے اہل خاندان نے انہیں ووٹ دینے کا برملا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح پروفیسر عبدالغنی بٹ، ڈاکٹر غلام قادر وانی، ایڈووکیٹ حسام الدین وغیرہ ایسے نام تھے جنہیں کسی طرح ہرایا نہیں جاسکتا تھا لیکن انتظامیہ نے ووٹوں کی گنتی کے بغیر انہیں ناکام قرار دے کر راتوں رات گرفتار کرلیا اور پورے مقبوضہ علاقے میں حکومت مخالف مظاہروں سے نمٹنے کے لیے فوج نے پوزیشن سنبھال لی۔ سرکاری طور پر انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو اس میں مسلم محاذ کے صرف چار امیدوار کامیاب قرار دیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک نام سیّد علی گیلانی کا تھا کہ حکومت انہیں ہرا کر پورے الیکشن پر سوالیہ نشان نہیں لگانا چاہتی تھی۔ بہرکیف انتخابی نتائج نے ان سیاستدانوں کو بھی مایوس کردیا جو کشمیر کی آزادی کے لیے ہر حال میں پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے حق میں تھے۔ سیّد علی گیلانی بھی ان لیڈروں میں شامل تھے۔ وہ اگرچہ ہر حال میں اُمید کا دامن تھامے رکھتے لیکن انتخابات میں جس بڑے پیمانے پر شیطانیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا اس نے پُرامن سیاسی جدوجہد سے ان کا یقین بھی متزلزل کردیا تھا۔ سب سے زیادہ اثر نوجوانوں نے لیا۔ انہوں نے سیاسی عمل سے مایوس ہو کر ہتھیار اُٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ’’حزب المجاہدین‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے پہلے سربراہ محمد احسن ڈار مقرر ہوئے۔ احسن ڈار کا تعلق بھی چوں کہ جماعت اسلامی سے تھا اس لیے یہ تاثر لیا گیا کہ حزب المجاہدین جماعت اسلامی ہی کا عسکری بازو ہے اور جماعت نے بھارت کے خلاف جہاد کا آغاز کردیا ہے۔
یہ تاثر جماعت اسلامی کی پُرامن سیاسی اور تحریکی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا تھا۔ اس لیے جماعت کی قیادت نے فوری طور پر مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرکے اس تاثر کی نفی کی اور حزب المجاہدین سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ بعد میں جب یوسف شاہ المعروف سیّد صلاح الدین حزب المجاہدین کے سربراہ بنے تو انہوں نے یہ وضاحتی بیان جاری کیا کہ حزب المجاہدین کسی جماعت کا عسکری بازو نہیں ہے بلکہ وہ پوری ملت اسلامیہ کشمیر کی نمائندہ عسکری طاقت ہے اور اس میں ہر مکتب فکر کے نوجوان شامل ہیں۔ سیّد علی گیلانی برملا اس رائے کا اظہار کرتے تھے کہ بھارت کے غیر جمہوری اور پُرتشدد رویے نے کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پر مجبور کیا ہے۔ اب ان کے سامنے بھارت کے خلاف مسلح مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ گیلانی صاحب نے محسوس کیا کہ مسلح مزاحمت کو سیاسی حمایت فراہم کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر مسلح مزاحمت کا وزن پیدا نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ سید علی گیلانی نے انتہائی سوچ بچار اور دوستوں سے مشورے کے بعد جماعت اسلامی سے ایک معاہدے کے تحت علاحدگی اختیار کرلی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں کشمیر ہائی کورٹ کے نامور وکیل میاں عبدالقیوم حریت کانفرنس کے چیئرمین اور اشرف صحرائی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے لیکن بعد میں جب حریت کانفرنس کی کارروائیوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو حریت کانفرنس کا سب سے موثر دھڑا سید علی گیلانی کی قیادت میں الگ ہوگیا اور گیلانی صاحب اس کے چیئرمین قرار پائے۔
1990ء کا اوائل تھا کہ سید علی گیلانی 9 اپریل کو پھر گرفتار کرلیے گئے۔ یہ بھارتی استعمار کے ہاتھوں ان کی نویں گرفتاری تھی۔ 1990ء سے شروع ہونے والے دور اسیری کی روداد گیلانی صاحب نے ’’روداد قفس‘‘ کی دو جلدوں میں بیان کی ہے، جب کہ تیسری جلد کا مسودہ بھارتی حکومت نے ضبط کرلیا تھا اس لیے تیسری جلد شائع نہ ہوسکی۔ گیلانی صاحب جیل ہی میں تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے گورنر جگ موہن نے 16 اپریل 1990ء کو ایک آرڈر کے ذریعے جماعت اسلامی، حزب المجاہدین اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سمیت 8 تنظیموں پر پابندی لگادی اور ان کے لیڈروں اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری شروع ہوگئی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب حزب المجاہدین کے سربراہ سیّد صلاح الدین گرفتاری سے بچنے کے لیے ہجرت کرکے آزاد کشمیر آگئے۔
(جاری ہے)