ابھی بھی وقت ہے

415

یہ بات کہانی بھی نہیں اور افسانہ بھی نہیں ہے، بلکہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے، کوئی سلطنت کیسے تباہ ہوتی ہے؟ اس کے لیے یہ دیکھنا لازم ہے کہ اس سلطنت میں عدل کا نظام کیسا ہے، حکمران کس قدر عیاش ہیں اور مشیروں کی دانش کا معیار کیا ہے ابھی کل کی بات ہے تاریخ بتاتی ہے کہ مغلیہ سلطنت کیسے زوال پزیر ہوئی، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کس کا پلڑا بھاری رہا اور کون تباہ ہوا، روس افغانستان میں آیا اور واپس گیا تو اس کا سارا نظام روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں بکھر گیا، تباہی دیکھنے کے لیے عدل کے بعد دوسرا معیار عیاشی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد سلطنت برطانیہ کا تقریباً دیوالیہ نکل چکا تھا اور اس کا شیرازہ بکھرنے ہی والا تھا کہ امریکی حکومت نے قرض فراہم کرتے ہوئے اسے مکمل تباہی سے بچا لیا اور نئی سرد جنگ اسے کچھ عرصے کے لیے محفوظ بنا گئی، مگر میگھن کیس کو دیکھیں تو یہ سلطنت اس وقت ایک بڑے مشکل دور سے گزر رہی ہے، یہ کیس عدل کا امتحان ہے۔
ماضی کہتا ہے کہ 1956 میں نہرِ سوئز تنازعے کے موقعے پر امریکا، سوویت یونین اور اقوام متحدہ نے برطانیہ پر مصر سے فوجیں واپس بلانے کے لیے دباؤ ڈالا اور اس کے بعد ہی برطانیہ کی سامراجی قوت کے سنہرے دن لد چکے تھے، گزشتہ صدی کے آخری بیس سال میں کیا ہوا؟ افغانستان میں نو سال تک ذلیل خوار ہونے کے بعد روس فروری 1989 میں کابل سے نکل گیا اور وقار کابل میں دفن کرنے پر مجبور ہوا، اس کا آخری فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بورس گروموف ہاتھ میں گلدستہ لیے نکلا تھا کہ اب کوئی سوویت سپاہی نہیں رہا، روس جب نکلا تو ایک کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ شہری جنگ کے دوران موت کے گھاٹ اتر گئے، 50 لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ گئے بے شمار لوگ بے گھر ہو کر رہ گئے۔ افغانستان کے کئی شہر اور قصبے تباہ ہو گئے، جارج ڈبلیو بش نے بھی ایک معرکہ میں اپنا پیسہ اور فوجی جھونکا ، لیکن وقت نے بتا دیا کہ افغانستان کے سلطنتوں کا قبرستان بننے کی پرانی کہاوت روس کی طرح امریکا کے بارے میں بھی سچ ثابت ہوئی۔
امریکا کی انتہائی بری پسپائی روس کے 1989 میں انخلا جتنی شرمناک ہے اس خوفناک شکست سے امریکا کے وقار پر گہری ضرب پڑی ہے جغرافیائی سیاست میں بھی اسے اتنی ہی بڑی ناکامی کا سامنا ہے کہ سامنے چین کھڑا ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ درست ہے کہ وقتی طور پر امریکا اپنی عسکری قوت اور اقتصادی طاقت برقرار رکھے گا؟ گزشتہ دو دہائیوں سے بتدریج یہ احساس بڑھا ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی پوری طرح اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے قابل نہیں رہا طالبان اقتدار میں ٹھیک اسی جگہ واپس آ چکے ہیں جہاں سے بیس سال قبل انہوں نے سفر شروع کیا تھا جس طرح امریکا 2006 میں دنیا کو دیکھ رہا تھا اور جس طرح آج دیکھ رہا ہے اس میں رات دن کا فرق ہے اب ہم اپنے اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں جو مسلسل کھٹک رہا ہے کہ کیا افغانستان میں طالبان کی واپسی کا مطلب ہے امریکی بالادستی کے سنہرے دن گزر چکے؟ اب یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے کہ افغانستان اور اس کے دسیوں لاکھ قابل رحم آبادی کو دوبارہ طالبان کے حوالے کرنے کے بعد کیا امریکا عالمی سطح پر اخلاقی بالادستی کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ ابھی اس سوال کا جواب نہیں ملے گا کہ ابھی مہلت عمل باقی ہے۔