پی ٹی آئی کا اداروں پر حملہ

656

پی ٹی آئی حکومت نے الیکشن کمیشن کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے سربراہ کے فیصلوں پر نظرثانی کرے۔ وفاقی وزرا فواد چودھری اور شبلی فراز نے اپنی پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ سکندر سلطان راجا حکومتی اصلاحات کے مخالف ہیں، اپوزیشن کی زبان بول رہے ہیں۔ انہوں نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین پر دانستہ اعتراضات اٹھائے ہیں وہ استعفا دے کر سیاست میں آجائیں، ان وزرا نے حکومت کے خلاف اپوزیشن کے رویے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اپوزیشن کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لوگوں کا جمہوریت پر سے اعتماد ختم ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر شیطان بھی دھرنا دے تو مریم نواز اس کا ساتھ دیں گی۔ اور بلاول تالیاں بجائیں گے۔ جملے بازی سے قطع نظر وفاقی وزرا کا الیکشن کمشنر کے خلاف اس ادارے کے ارکان سے مطالبہ غیر آئینی اور نہایت غلط روایت کے آغاز کا سبب بنے گا۔ بالفرض اگر الیکشن کمیشن نے اپنے سربراہ کے فیصلوں پر خود نظرثانی کردی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن کا ادارہ تباہ ہوگیا، سارا نظام تلپٹ ہوجائے گا۔ اسے الیکشن کمیشن میں بغاوت کہا جائے گا۔ اسی طرح اگر حکومت کو عدالت کا کوئی فیصلہ پسند نہ آئے یا اس کے خلاف آجائے تو کیا وہ چیف جسٹس کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے کہے گی کہ اس پر نظرثانی کرے۔ حکومت یہ بھی کرچکی ہے۔ اس سے آگے بڑھیں، کیا پی ٹی آئی حکومت پاک فوج کے سربراہ کے کسی فیصلے پر یہ کہہ سکتی ہے کہ پاک فوج جنرل باجوہ کے فیصلوں پر نظرثانی کرے۔ اس کی نہ تو پی ٹی آئی میں مجال ہے نہ کسی اور حکمران میں ایسا گردہ تھا کہ وہ فوج سے اپنے سربراہ کے فیصلوں پر نظرثانی کی بات کرے۔ پی ٹی آئی حکومت نیب کے معاملے پر بھی اس قسم کے رویے کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ اس معاملے میں براہ راست بھی اختلافات کیے گئے اور بالواسطہ بھی معاملہ لٹکایا جاتا ہے۔ جیسے اب چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے شہباز شریف سے مشاورت پر عمران خان کا تیار نہ ہونے کا اعلان ہے۔ ارے آپ کو شکل پسند ہو یا نہیں نام پسند ہو یا نہیں آپ کی پارلیمنٹ نے انہیں قائد حزب اختلاف بنایا ہے تو ان سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ لیکن عمران خان اس معاملے کو بھی ٹال رہے ہیں۔ گویا نیب کے معاملے میں بھی حکومت اپنی مرضی کا چیئرمین چاہتی ہے۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے معاملے پر تنازع میں دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی وزرا کے مطابق چیئرمین الیکشن کمیشن نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین دیکھے بغیر اس کی مخالفت کی ہے۔ اگر ایسا ہے تو بھی افسوسناک ہے لیکن اس معاملے کو سلجھانا کس کا کام ہے۔ کیا الیکشن کمیشن اسے سلجھائے گا۔ نظرثانی کا مطلب حکومت کی رائے میں اس کے مطالبات تسلیم کرلینا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض کیا ہے تو پارلیمنٹ اس کو زیر بحث لائے۔ جیسی اور جتنی بھی صلاحیت ہے۔ یہی ارکان پارلیمنٹ عوام کے سامنے پیش ہوتے ہیں، انہیں خود سمجھ میں آجائے گا کہ ان کے عوام میں کتنی صلاحیت ہے، وہ اس پر جو رائے دیں مشاورت کے بعد کوئی راہ نکالیں۔ لیکن الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے مسئلے پر اس قدر ہنگامہ کیوں ہے۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اس کے سرپرست ہی الیکشن میں ایک بار پھر کوئی جھرلو پھیرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن نے حکومتی وزرا کے بیان کو آمرانہ سوچ کا عکاس قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے مطالبات کو آمرانہ سوچ کا عکاس ہی کہا جائے گا۔ اپوزیشن کا یہ الزام بھی درست ہے کہ عمران خان کے حکم پر الیکشن کمیشن کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ وفاقی وزرا حکومت کی پالیسی یا بیانیے کا دفاع کررہے ہیں اور اپوزیشن اپنے بیانیے پر قائم ہے۔ لیکن اس رویے کا سارا نقصان قومی اداروں کو ہوگا۔ یہ رویہ ہی غلط ہے کہ اگر کوئی فیصلہ پسند نہ آئے تو اس ادارے کے سربراہ کے خلاف بغاوت کا مطالبہ کردیا جائے۔ وفاقی وزرا فواد چودھری اور شبلی فراز یہ بتائیں گے کہ اگر اپوزیشن یہ مطالبہ کرے کہ وفاقی حکومت عمران خان کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور تبدیلیٔ مذہب کے مجوزہ بل پر نظرثانی کرے۔ وہ نئے سیلز ٹیکس کے نفاذ کے عمران خان کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کرے تو کیا یہ وزرا اس کی حمایت کریں گے۔ حالاں کہ پورا ملک عمران خان کو مسلط کرنے والوں سے یہ مطالبہ کررہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں لیکن وہ بھی ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ حکومت اور اپوزیشن الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے مسئلے پر اُلجھے ہوئے ہیں بلکہ اس بحث کو میڈیا کے ذریعے اُٹھا کر عوام کو اُلجھا رہے ہیں۔ عوام میں بحث ہورہی ہے کہ ووٹنگ مشین درست ہے یا ہاتھ سے ووٹ ڈالنے کا پرانا طریقہ۔ لیکن اسمبلی میں بحث نہیں ہورہی۔ حکومت اور اپوزیشن اگر سنجیدہ ہیں (جس کا کوئی امکان نہیں) تو تمام بحثیں پارلیمنٹ میں کریں اور سنجیدگی اور وقار کے ساتھ کریں۔ صرف اپوزیشن کے رویے سے نہیں حکومت کے رویے سے بھی لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔