طالبان کی کامیابی: 14 وجوہات

838

 

۔1 علماء کی تنظیم: تحریک طالبان کی کامیابی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ علماء اور دینی طلبہ کی تنظیم ہے۔ یعنی قیادت علماء کے ہاتھوں میں ہے۔ حدیث یہ ہے کہ علماء انبیاء کے وْرَثا ہیں۔ تو یہ وِراثَت صرف مذہبی نہیں ہے۔ یہ سیاسی بھی ہے۔ جس طرح سیدنا محمد رسول اللہؐ نبی اور رسول کے ساتھ مدینہ کے حاکم بھی تھے، رولر بھی تھے اور ان کے بعد جس طرح خلفائے راشدین نے نبوت کی سیاسی وِراثَت کو خوب اچھی طرح نبھایا۔ اسی طرح قیامت تک کے علماء کا اب یہ فرض ہے کہ نبوی طرز کی سیاست کے لیے اپنی قیادت پیش کریں۔
طالبان نے اور ان کے پہلے قائد ملا عمر، دوسرے امیر ملا اختر منصور اور اب شیخ الحدیث ہیبت اللہ اخوند زادہ خوب اچھی طرح نبھا رہے ہیں۔ طالبان نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ بیعت تھی جہاد کی اور شہادت کی۔ جب ان لوگوں نے بیعت کی تھی خصوصاً امریکا اور بین الاقوامی متحدہ فوج کے حملہ کے بعد یعنی تو ان کے حملے اور قبضے کے بعد تو ان سب مجاہدین کو یقین تھا کہ ہم شہادت پائیں گے۔
2۔ جماعتی زندگی: طالبان کی کامیابی کا دوسرا راز ہے جماعتی زندگی۔ دور اول کے اسلام کے خطوط پر جماعت کا نظم۔ امارت یعنی امیر کا قیام بذریعہ بیعت، امیر کی معروف میں مکمل اطاعت۔ شوریٰ کا نظام۔ ہر اہم معاملہ میں شوریٰ۔ اور کارکنان یک جٹ سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ جماعت اور منظم مجاہدین، اور اس کے کمان کے بغیر کسی گروہ کا کامیاب ہونا ناممکن تھا۔
3۔ تَوَکّْل: تیسری وجہ اللہ پر کامل ایمان اور تَوَکّْل۔ اس بات کا پورا یقین کہ اللہ سپر پاور ہے نہ کہ روس اور امریکا۔ اور موت سے بے خوفی، اللہ سے ملاقات کی آرزو۔
4۔ امر بالمعروف و نہی عنی المنکر یعنی بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کے سب سے بڑے فریضہ والی سنت کو زندہ کرنا۔
5۔ جہاد: جہاد کا راستہ اختیار کرنا۔ یہ وہی راستہ ہے جسے اللہ نے دکھایا ہے، جو رسول اللہؐ کی سنت ہے۔ اور جسے صحابہ اکرامؓ نے اختیار کیا ہے۔
6۔ دعوت و تبلیغ: اسلام اور طالبان کے مقاصد کی دعوت و تبلیغ کی گئی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر کٹھ پتلی حکومت کے فوجی، پولیس اہلکار، بیوروکریسی اور کئی اہم جگہوں سے لوگ کٹ کر، ٹوٹ کر طالبان سے ملتے چلے گئے۔ وہ اسلحہ بھی لے کر آئے اور طاقت بھی۔ اس طرح انہوں نے تمام قبائل، لسانی اکائیوں، اور شمال، جنوب، مشرق و مغرب ہر علاقہ سے لوگوں کو اپنے اندر شامل کیا۔ دسیوں قبائل سے لوگ اس میں شامل ہوئے تھے اور یہ کثیر القومی، اور کثیر السانی گروپ بن گیا۔ پشتون کی آبادی 40فی صد ہیں اس لیے ظاہر ہے ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لیکن ان میں ہزارہ، تاجک، ازبیک، تْرکَمین، آئیمیقس، نورستانی، بلوچی، پامیری، پشائیز کے بھی مجاہدین شامل تھے۔ تحریک طالبان کوئی قبائلی تحریک نہیں تھی جیسا کہ پاکستان اور انڈیا کے بہت سے صحافی اپنی لاعلمی کے باعث باور کرار ہے ہیں۔ یہ ایک انقلابی تحریک تھی۔ وہ تمام گِروہ اور تنظیمیں جن کا مقصد تھا قرآن و سنت کی حکمرانی، دین کا قیام اور شریعت کا نفاذ، وہ سب تحریک طالبان کی معاون و مددگار بن گئیں۔ طالبان نے بھی بہت لچک اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا اور اس طرح دراصل تحریک طالبان ایک چھتری تنظیم بن کر سب کو سمیٹتے چلی گئی۔
7۔ ریاست کی قوت کو حاصل کرنے کا ہدف۔ کیونکہ حکومت کی طاقت کے بغیر امر بالمعروف و نہی عنی المنکر کا فریضہ انجام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے تحریک طالبان ریاست کی طاقت کو حاصل کرنے کے لیے یعنی جیتنے کے لیے لڑی، نہ کہ صرف اپوزیشن کی ایک قوت بننے کے لیے جیسا کہ جمہوریت میں عام طور پر ہوتا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ اگر وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں یہ جنگ ضرور جیتیں گی۔ اور اسلامی حکومت قائم ہو کر رہے گی۔
8۔ اسٹرٹیجک پلاننگ: اسٹرٹیجک پلاننگ ان کی زبردست تھی۔ پہلے انہوں نے جنوب اور مشرق اور اس کے بعد شمال کے چند اضلاع میں جہاں جہاں ان کی تعداد زیادہ تھی اپنی گِرِفت مضبوط کی۔ اس کے بعد وہ پورے شمال پر قابض ہونے کے لیے کامیابی سے آگے بڑھتے چلے گئے۔
9۔ احسان: طالبان کی اوپر کی قیادت سے لے کر نچلی سطح تک اپنے کو خوب سے خوب کی طرف لے گئے۔ اپنی بہترین تربیت کی۔جنگی، انتظامی، سفارتی، ابلاغی ہر میدان میں اپنی کارکردگی کو بہترین کیا۔ اسے احسان کے درجہ تک پہنچایا۔ اپنے ہرکام میں فضیلت پیدا کی۔ یہ دنیا کی بہترین گوریلا جنگ تھی اور امریکا کے لیے سب سے طویل جنگ۔ درست فرمایا تھا طالبان نے کے گھڑی تمہاری کلائیوں میں ہے، اور وقت ہماری مٹھی میں۔
10۔ موثر ابلاغ: طالبان نے ابلاغ کے ہر موثر اور ممکن ذریعہ کو ہمیشہ استعمال کیا۔ کیسٹ، سی ڈی، سے لے کر یو ایس بی تک، تقاریر، جہادی نغمے، شاعری، بہترین پروفیشنل آڈیوز، اور ویڈیوز، اپنا مقامی ریڈیو، فیلڈ ریڈیو، سیل فون، رات کے خطوط، شب نامہ اور اس کی گھر گھر ترسیل۔ سوشل میڈیا کی جب اجازت ملی یا گنجائش نکلی تو اس میں بھی بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ امارات اسلامیہ کی ویب سائٹ کو کئی زبانوں انگریزی، پشتو، فارسی وغیرہ میں بہترین مواد کے ساتھ ہمیشہ زندہ رکھا۔ اس میں جدت بھی پیدا کی اور مواد کے معیار کو بھی بہتر کیا۔ ان کا جاری کیا ہوا انگریزی میں بہترین لکھا ہوا پریس ریلیز ساری دنیا کے میڈیا کو جاتا تھا۔ اور امریکا کے بھی کئی متبادل میڈیا میں کبھی کبھی آجاتا تھا۔ طالبان کے ایک کمانڈر ملا داد اللہ نے بارہا الجزیرہ کے نمائندہ کو اپنے خفیہ ٹھکانہ پر بلا کر انٹرویو دیا۔ جس سے طالبان ہیروز کے بارہ میں جاننے کا دنیا کو موقع ملا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کا جو امیج دنیا میں ہے کہ وہ روایتی مولویوں کی ایک جماعت ہے اور جدید ذرائع ابلاغ سے قطعی نا واقف ہیں، غلط ثابت ہوا۔ وسائل نہ ہونے کے باوجود وہ ایک نفیس ابلاغی نظام چلا رہے تھے۔
11۔ انٹیلی جنس: جاسوسی کا بہترین نظام تھا۔ دشمن امریکا اور اتحادی فوج کی موومنٹ کا انہیں علم ہوتا تھا۔ دشمنوں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ کارنیگی اینڈومنٹ کی طرف سے گیلس ڈورون سورو (Gilles Dorronsoro) نے متحدہ فوج (I.C.) کے لیے ایک ریسرچ پیپر تیار کیا تھا۔ جس کا عنوان تھا ’’افغانستان میں طالبان کی جیت کی حکمت عملی‘‘۔
(The Taliban’s Winning Strategy in Afghanistan)
باقی صفحہ7نمبر1
جاوید انور
اس میں ان باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی متحدہ فوج طالبان پر اب تک کیوں قابو نہ پاسکی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے کہ:’’ہمارے مشاہدات اور قابل اعتماد شواہد کے مطابق طالبان کے پاس ایک موثر قیادت ہے۔ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے رہے ہیں اور اپنے مخالفن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں جلدی کر رہے ہیں۔ وہ ایک متوازی انتظامیہ بنا رہے ہیں، ملک گیر لاجسٹکس رکھتے ہیں اور پہلے ہی سے ایک متاثر کن انٹیکر جنس ٹیم ورک کا انتظام کر رہے ہیں‘‘۔
12۔ سفارت کاری: افغانوں کے بارے میں کہا جانے لگا تھا کہ وہ میدان جنگ کے ہیرو ہیں لیکن مذاکرات کے میز کے زیرو۔ انہوں نے یہ تاثر اب ایسا توڑا کہ سفارت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ کچھ ماہ قبل تک جو لوگ دنیا کے نزدیک دہشت گرد تھے، اب ساری دنیا انہیں تسلیم کرنے پر رضامند ہے۔ آخری دو سال میں چین روس، ایران اور دیگر ممالک جا کر جس طرح زبردست سفارتی کوشش کی ہے اس سے ان کے دشمن بھی ان کی سفارتی صلاحیتوں کے مْعتَرِف ہیں۔ بڑے نپے تلے انداز میں بات کرتے ہیں، نہ ایک لفظ کم، نہ ایک لفظ زیادہ۔ اگر چین، روس، اور ایران کے سفارت خانے قائم ہیں تو امریکا بھی آئے گا اور امریکا کے ساتھ پوری دنیا بھی۔ افغانستان میں اس وقت طالبان کے علاوہ کوئی طاقت ہے ہی نہیں۔ طالبان کی حکومت کو قبول نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکا نے اس پورے خطہ کو چین کے حوالہ کر دیا۔ اور ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔ اور درست بات یہ ہے کہ اگر ساری دنیا بائیکاٹ کر دے تب بھی چند دنوں کی مشکلات کے بعد افغانوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کی مجبوری نہیں رہے گی۔ یہ تو اللہ کا وعدہ ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے ایک سینئر سیاسی تجزیہ نگار نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طالبان بہت زیادہ قَناعَت پسند ہیں، انہیں بہت زیادہ مال سے دلچسپی بھی نہیں ہے۔ انہیں صرف ضرورت کے مطابق سرمایہ چاہیے۔ اور امریکا کے نکلنے کے بعد چین اس خَلا کو پر کر دے گا جو کہ معیشت کے معاملہ میں پیش رفت سرعت کے ساتھ کرتا ہے۔
13۔ دشمن کی اخلاقی پستی: دشمن کی اخلاقی پستی کی انتہا تھی۔ امریکا اور اتحادی فوج کا افغانوں پر ظلم و درندگی، لاکھوں کا قتل عام جس میں اکثریت عام لوگوں کی تھی، نے عوام میں امریکا کے خلاف غم و غصہ سے بھر دیا تھا۔ افغان حکومت اور امریکی غنڈوں کی طرف سے بگرام کے عقوبت خانے میں 600 قیدیوں کے ساتھ کی جانے والی ٹارچر کی داستان ہر افغان کو معلوم تھی۔ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت نے ظلم کے ساتھ ساتھ کرپشن کی بھی انتہا کر دی تھی۔ ترقیاتی کاموں کے لیے آنے والی امداد کے بڑے حصے کو وہ ہڑپ کر جاتے تھے۔ اْلوسوالی یعنی ضلعی سطح پر انتظامیہ بالکل منہدم ہو چکی تھی۔
طالبان بین القوامی جارحیت، کٹھ پتلی حکومت کی صاف نظر آنے والی کرپشن، ان کی بدکاری اور بدمعاشی کو افغان عوام تک پہنچاتے رہے اور طالبان کا سماجی اور مذہبی حمایت کا دائرہ ہر روز بڑھتا چلا گیا۔ 2006 سے عوام کو یقین ہو گیا تھا کہ افغان حکومت اور عالمی اتحادی فوج زیادہ عرصہ تک اب ٹک نہیں سکتی ہے۔ سرکاری اہلکاروں، فوجیوں اور سپاہیوں نے اسلحہ مقامی گروپوں کو بیچنا شروع کر دیا تھا۔ افغان آرمی تمام تر فوجی تربیت اور جدید اسلحہ کے باوجود لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ سو سپاہیوں کا ایک دستہ بھی متحدہ فوج کی مدد کے بغیر آزادانہ کاروائی نہیں کرتا تھا۔ بیرونی فوجوں میں بھی لڑنے کی ہمت ٹوٹ چکی تھی۔ طالبان موت کے لیے، شہادت کی آرزو لیے لڑ رہے تھے اور ان کی دشمن فوج، دنیا کے لیے لڑ رہی تھی اور وہ دنیا اب دور دور تک نظر نہیں آتی تھی۔ امریکا اور مغربی ممالک کا سارا زور اقتصادی ترقی پر تھا۔ جب کہ کوئی ریاست تحفظ، قیام امن، اور عادلانہ نظام اور ایک اچھے نظریہ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔
14۔ بشارت: چودہویں وجہ مندرجہ بالا تیرہ وجوہات سے مختلف ہے۔ یہ رسول اللہؐ کی دی ہوئی بشارت تھی کہ دور آخر میں ساری دنیا میں خلافت کے قیام سے قبل عرب کے مشرق کے ایک ملک میں خلافت قائم ہوگی۔ ڈاکٹر اسرار کو یقین تھا کہ وہ خطہ خْراساں کا ہے جو آج کا افغانستان ہے۔
کیا مسلم دنیا کی تمام تحریکات اسلامی کے لیے اور علماء کے لیے تحریک طالبان دور جدید کا رول ماڈل ہے؟ جواب ہے : جی ہاں۔