قرار داد مقاصد سے نیشنل ایکشن پروگرام تک

363

روزنامہ ’’جنگ‘‘ مورخہ 14 ستمبر کی اشاعت میں سینیٹر اے رحمان ملک صاحب کا مضمون ’’شدت پسندی بمقابلہ عالمی انتہا پسندی‘‘ نظر سے گزرا۔ مضمون نگار نے سوال اُٹھایا ہے کہ ’’کیا کبھی ہم نے مذاہب کے مابین نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی بین الاقوامی اور مقامی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف جانے کی کوشش کی ہے؟‘‘ بلاشبہ یہ سوالات اہم ہیں لیکن سوال کیا جاسکتا ہے کہ خود ان کی حکومت اور ان کی بحیثیت وزیر داخلہ کیا ان سوالات کو حل کرنے اور اس ضمن میں کوئی عملی اقدامات اٹھائے گئے۔ اگرچہ ان کے دور میں یکساں نصاب تعلیم، مدارس دینیہ و تمام مکاتب فکر کے جید علما و اسکالرز کے مابین اتفاق رائے سے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ بھی ترتیب دیا گیا جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اہم اقدامات تھے لیکن کیا ان کے دور حکومت میں اس اہم قومی سطح کی تاریخی دستاویز پر عمل درآمد کے لیے کوئی قابل ذکر پیش رفت ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے ابھی تک اس قسم کی تجاویز، نکات، مشترکہ اعلامیے وغیرہ ہماری تاریخ کا حصہ ضرور رہے ہیں لیکن کیا حکومتوں نے اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ المیہ ہے کہ اس قسم کے اقدامات بنتے بگڑتے رہے، آج محض ایک تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہیں، قوم تو آج بھی قیام پاکستان کی اساس اور اولین دستاویز قرار داد مقاصد جو 12 مارچ 1949ء میں دینی جماعتوں و علما کرام کی تائید، تجاویز و حمایت سے ترتیب دی گئی جو پاکستان کی اسلامی شناخت کو واضح کرتی ہے اور اب آئین پاکستان کا حصہ بھی ہے۔ یہ بھی عمل درآمد کی آج بھی منتظر ہے۔ یہ وہ تاریخی قرار داد ہے جس کے ذریعے پاکستان میں اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ و عمل درآمد کے لیے تمام مکاتب فکر نے انتہائی خلوص و محبت سے ترتیب دے کر حکمرانوں سے اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
حکمرانوں سے اس قرار داد کو بھی سردخانے میں ڈالنے کے لیے ادارے تو بنائے جو اسلامی نظریاتی کونسل و مشاورتی ادارے آج بھی موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوا اور اس عمل کو ٹالنے کے لیے مزید ایک شوشا مکاتب فکر کے مابین موجود فقہی اختلافات کو بنیاد بنا کر کہا گیا کہ یہاں کون سا اسلام نافذ کیا جائے کیوں کہ ہر فرقے کا اسلام جدا جدا ہے، ساتھ ہی تشریح و تعبیر کے اختلافات کو اُچھالا گیا، اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے قرار داد مقاصد کی افادیت و اہمیت کو ختم کرنے اور عوام و دینی جماعتوں کے اسلامی قوانین کے نفاذ کی جدوجہد و مطالبات کی شدت کو کم کرنے کا ذریعہ بنایا گیا تا کہ عوام کا جذبہ سرد ہو جائے۔ لیکن علما و دینی جماعتوں نے اس پروپیگنڈے و چیلنج کا بھی اپنے اتحاد کے ذریعے ’’متفقہ 22 نکات‘‘ ترتیب دے کر حکومت کو جواب دے دیا جس پر ہر مکتبہ فکر کے جید علما کے دستخط موجود ہیں (جس کی تفصیلات و علما کرام کے نام و 22 نکات میری تازہ کتاب ’’کھلے دریچے‘‘ میں موجود ہے) اس طرح حکومت کے اعتراض کا ازالہ کرکے اسلامی قوانین و نظام کی راہ میں رکاوٹ کو ختم کردیا گیا لیکن اس تاریخی اقدامات و جدوجہد کے بعد بھی ہر حکومت کے دور میں اسلامی قوانین کے نفاذ کو اعلانات، بیانات و نیم اقدامات کے ذریعے ٹالا جاتا رہا اور آج 70 سال گزرنے کے بعد بھی ملک اپنی شناخت کے حوالے سے عملی اقدامات سے محروم ہے۔ تحریک پاکستان سے آج تک اس حوالے سے چلنے والی تمام تحریکیں دم توڑ چکی ہیں۔ خصوصاً 1977ء کی تحریک نظام مصطفی کے بعد لگتا ہے کہ دینی جماعتیں بھی مایوسی کا شکار ہوگئیں، اب صرف جوش و جذبہ رہ گیا ہے جس کا بیانات کے ذریعے صرف میڈیا تک کا وجود ہے، تحریک ختم ہوگئی ہے اور ماضی میں چلنے والی تمام تحریکوں میں عوام نے سادہ لوحی میں جو قربانیاں دی تھیں اس کا اصل فائدہ حکمرانوں، بددیانت سیاستدانوں، فرقہ پرست مذہبی جماعتوں اور کرپٹ عناصر نے اٹھایا جو ان تحریکوں کے پش پشت اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کرتے رہے۔ حکومتیں تبدیلی ہوتی رہیں، تبدیلی و انقلاب کا نعرہ لگتا رہا لیکن ملک تیزی سے عالمی سامراجی نظام کا حصہ بنتا رہا، اس سامراجی و استحصالی نظام کا شکار عوام ہوئے اور ہر حکومت و اشرافیہ طاقتور ہوتی رہی۔
آج ملک آئی ایم ایف و دیگر عالمی سودی اداروں کی مالیاتی پالیسی کا شکار ہے جس کا نتیجہ معیشت کی بدحالی، غربت میں اضافہ ہے، لیکن اشرافیہ کی طاقت اور ملک میں لوٹ مار کی قوتوں کو مزید طاقت حاصل ہورہی ہے۔ آج کا وزیراعظم بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ہمارے یہاں نظام عدل و قانون دو طرح کے ہیں، طاقتور کے لیے الگ ہے جب کہ کمزور طبقات کے لیے الگ قانون ہے۔ وزیراعظم کی سطح پر فائز یہ ریمارکس ہمارے ملک کے حالیہ نظام کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ہر حکومت تبدیلی و اسلام کی بات کرتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ حکمرانوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ بیوروکریسی کیا کررہی ہے، مہنگائی، ظلم وانصافی معاشرے میں کس طرح فروغ پارہی ہے۔ جرائم، جنسی تشدد و ریپ، اغوا قتل کے بھیانک واقعات تشویشناک حد تک بڑھتے جارہے ہیں۔ سرکاری اداروں میں کرپشن و رشوت کے ریٹ کیوں بڑھ رہے ہیں، ہمارا نظام قانون کیوں ان حالات پر کنٹرول نہیں کر پارہا ہے۔ جب کہ ہمارا آئین اسلامی ہے اور اس میں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے مروجہ قوانین معاشرہ و حکومتی سطح پر کوئی خاص تبدیلی لانے میں کیوں ناکام ہیں؟ ہمارا وزیراعظم ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے جب کہ حالات یہ ہیں کہ معاشرے میں ایک مہذب و قانونی معاشرے کا منظر بھی پیش کرنے سے خالی ہے، جب کہ ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اس کی اصل وجہ حکمرانوں، سیاستدانوں، مذہبی جماعتوں کی اسلام کے دعوے کے باوجود اسلام کو محض ایک نعرہ تک محدود رکھنا ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے قانون اسلامی کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹ ڈالنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر آج جشن، جلسہ، جلوس و ریلیاں بہت ہیں لیکن عملی سطح پر قراردادِ مقاصد سمیت ہر اس دستاویز جس کے ذریعے اسلامی قوانین کے نفاذ کی راہ ہموار ہوتی ہو وہ تمام اب محض تاریخ کا حصہ ہیں۔
گزشتہ حکومت کے دور میں بھی قرار داد مقاصد کے بعد ایک اہم تاریخی اقدام ’’نیشنل ایکشن پروگرام‘‘ کا ذکر بھی جناب رحمن ملک نے کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے بین المذاہب کی ہم آہنگی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی خصوصیات و نکات بیان کیے اور اس کی افادیت سے بھی آگاہ کیا لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ اس پر خود ان کی حکومت نے عمل کیوں نہیں کیا۔ حالاں کہ اس پر اس کی روح کے مطابق نیک نیتی سے عمل کیا جاتا تو قرار داد مقاصد کے بعد یہ تاریخی دستاویز بھی ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے، باہمی رواداری اور اسلامی قوانین کی راہ ہموار کرتی اور ملک استحکام کا ذریعہ بنتی، لیکن یہ بھی دیگر دستاویز کی طرح عمل سے محروم ہے۔ اب بھی حکومت ملک کی حالت تبدیل کرنا چاہتی ہے اور بقول وزیراعظم ملک کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانا چاہتی ہے تو وہ قرار داد مقاصد، 22 متفقہ نکات اور نیشنل ایکشن پلان کو نمونہ بناتے ہوئے اس پر اور آئین کی اسلامی دفعات کی روشنی میں اسلامی نظریات کونسل کی سفارشات پر عملی اقدامات اٹھائے اور انگریزی دور کے غیر اسلامی و استحصالی قوانین کو ختم کرکے اسلامی نظام عدل و قوانین کو نافذ کرے۔ یاد رکھیے کہ یہ ملک اسلام کا نام لے کر بنایا گیا اور ہر تحریک میں اسلام کا نام لیا گیا لیکن آج یہ ملک اپنی اسلامی شناخت و اسلامی نظام قوانین کے نفاذ سے محروم ہے۔ یہ رویہ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے صریح بغاوت کے مترادف ہے جس پر ہمیں اب تائب ہوجانا چاہیے اور ملک میں بلاتاخیر اسلامی قوانین کو نافذ کردینا چاہیے ورنہ…
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں